Frankfort Ki Aik Subah
فرینکفرٹ کی ایک صبح
جہاز سے باہر نکلے تو وہی سب کچھ تھا جو ائیرپورٹ پر دیکھنے کو ملتا ہے، سکیورٹی، وہیل چئیر ز، بیگج بیلٹس، ادھر سے ادھر بھاگتے مسافر، کچھ کو اگلا جہاز چھوٹنے کی فکر، کچھ امیگریشن سے خوفزدہ۔۔
کچھ دیر تو سائن بورڈز کے سہارے چلے پھر سوچا پوچھ ہی لوں کہ کس اوکھلی میں سر دینا ہے؟ ایک صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے، بی بی اگلے جہاز میں گھسنے سے پہلے امیگریشن کے حساب کتاب سے تو گزرو۔
امیگریشن ہمیشہ پل صراط کا سا منظر پیش کرتی ہے۔۔ ہر کسی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں، یہ درشت چہرے والا کوتوال جو ہر کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیے سوال جواب کیے جاتاہے، جانے داخلے کی مہر لگائے گا یا واپسی کی راہ دکھائے گا۔۔
ہم تو عادی مجرم ہیں زمانوں سے سو لگ گئے لائن میں، کاؤنٹر پہ پہنچے تو پچیس تیس کی عمر کا جوان۔۔ پہلے تو گھور کر پاسپورٹ دیکھا پھر ہمیں۔۔ خیر سے سبز پاسپورٹ والا ہر باشندہ اس وقت تک دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے جب تک اپنے آپ کو معصوم ثابت نہ کر دے۔
ہاں بی بی، کہاں چلیں تم؟
سپین۔۔
کتنے دن ٹھہرو گی؟
سات دن۔۔
کیا کرو گی؟
گھومیں گے، پھریں گے، عیش کریں گے اور کیا؟
اکیلے یا کسی گروپ میں؟
ارے بیٹا کوئی گروپ شروپ نہیں۔۔
کیا واقعی اکیلے؟
ماں کے پیٹ سے اکیلے آئے تھے، قبر میں بھی اکیلے لیٹنا ہے تو ابھی اکیلے گھوم لیں گے تو کیا؟
اس نے حیرت سے ہمیں دیکھا۔ یقیننا سوچ رہا تھا کہ مائی کھسکی ہوئی ہے۔۔
واپسی کی ٹکٹ ہے؟
ہاں ہاں دیکھ لو۔۔
واپس کہاں جاؤگی؟ پاکستان؟
نہیں میں پاکستان میں نہیں رہتی۔۔
پھر۔۔
بس بیٹا خانہ بدوش ہیں، جہاں جی چاہتا ہے، بسیرا کر لیتے ہیں۔۔
جہاں رہتی ہو، وہاں کا کارڈ دکھاؤ؟
ابھی لو۔۔
چلو اب فنگر پرنٹس کرو۔۔
خدا خدا کرکے چھوکرے کو یقین آیا کہ یہ پاکستانی بڑھیا کسی مذموم ارادے سے نہیں گھوم رہی۔
یہ کہانی اس لیے لکھ رہے ہیں کہ یورپ جانے کے خواہش مند جان لیں کہ اتنی تفتیش اس پاسپورٹ کو دیکھ کر ہو رہی ہے جس پہ دنیا بھر کے ویزے لگے ہیں اور خانہ بدوش دنیا گھوم چکی ہے۔
چلیے جی اشارہ ہوا کہ پدھاریے سرزمین فرینکفرٹ پہ اور ہم چلے خراماں خراماں اس طرف جہاں اندلس کا جہاز ہمارا انتظار کر رہا تھا۔
کاؤنٹر پہ پہنچے تو بند کہ ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ چلیے کافی پیتے ہیں گیٹ سے باہر بیٹھ کر، دیکھتے ہیں شاید آتے جاتے خوبصورت آوارہ سڑکوں پہ کوئی خوبصورت چہرہ ہمیں نظر آجائے۔
کافی شاپ پہ ایک نوعمر لڑکی اور لڑکا کام کر رہے تھے، ایک لاتے اور ایک کروانسو۔ پھرتی سے دونوں چیزیں ہمیں تھما دی گئیں، مین گیٹ سے باہر کی بینچ پہ بیٹھنے کاارادہ تھا، کھلی فضامیں سانس لو اور پھر سے زندہ ہو جاؤ۔
کافی بینچ پہ رکھی، پانی پیا، کرونسو کی بائٹ لی اور ہاتھ کافی کے کپ کی طرف بڑھایا، ہائیں، کپ کہاں گیا؟ کافی کا کپ بینچ کے نیچے پڑا دہائی دے رہا تھا، جو مے تھی بہا دی مٹی میں، مہمان کا شہپر توڑ دیا، کچھ دیر ہم کپ کو گھور گھور کر دیکھتے ہوئے گنگنانے کی ناکام کوشش کرتے رہے، شیشوں کا مسیحا کوئی نہیں، کیا آس لگائے بیٹھی ہو۔۔
چلو جی پھر بھرو چار یورو اور کافی لے کر آؤ۔
واپس کافی شاپ پر پہنچے، ون لاٹے پلیز۔۔
You finished v fast.
لڑکی نے ہمارا کریڈٹ کارڈ پکڑتے ہوئے کہا۔
Actually it fell down۔
Ohh, no worries۔
کریڈٹ کارڈ سے پیسے لیے بغیر واپس کرتے ہوئے بولی، گر گئی، کوئی بات نہیں، میں دوبارہ فری آف چارج دوں گی۔
ہائیں، کیا ہمارے چہرے سے مسکینی ٹپک رہی تھی یا اسکی مہمان نوازی؟ یا پھر شاید بزنس ایتھکس؟ کہ ہم اسے کبھی بھول نہ سکیں۔
پھر سے کافی لے کر باہر بینچ پر جا بیٹھے، یک لخت ایک خاتون کے دھاڑ نے کی آواز سنی، چونک کر دیکھا تو ایک چینی خاتون، آگے آگے چلتے دو چھوٹے چھوٹے گول مول بچے، ایک جیسے جوتے، ایک جیسی جیکٹس اور ساتھ میں نہ جانے کس سٹریس کے تحت چیختی چلاتی ماں۔
جی چاہا کہ اسے کہوں، بی بی، مانا کہ تم تھکی ہوئی ہو اور ان دو شیطانوں نے تمہارا ناک میں دم کر دیا ہے لیکن ان کے ذہنوں میں یہ لمحے ہمیشہ باقی رہ جائیں گے، چھوڑو، کافی پئیو اور مٹی پاؤ۔
کتھے رہ گیا ایں توں، آہو آہو، باہر نکل آئے آں، آہو کڑیاں نال ای نیں۔
ایں۔۔ فرنکفرٹ میں لاہور؟
جینز، شرٹ، جیکٹ، جاگرز میں ملبوس ایک صاحب، ساتھ میں دس سے بیس برس کی عمر کی پانچ بچیاں اور صحت مند بیگم، سب نے عبایہ اور حجاب پہنے ہوئے۔
بیگم بار بار سوٹ کیسوں کی گنتی کرتیں جو پانچ ٹرالیوں پر لدے ہوئے تھے، کم و بیش اکیس بائیس، کیا ہوگا ان میں؟
شان مصالحے، ریوڑیاں، رنگ برنگے شلوار قمیض، بستر کی چادریں، پردے، ہو سکتا ہے ابال کر سکھایا گیا بکرے کا گوشت، پاکیزہ اور خواتین ڈائجسٹ کے پرانے شمارے، مٹھائیوں کے ڈبے۔
آ گیاں اے، آہو اسی گیٹ دے سامنے ای کھلوتے آں، آہو، گڈی اگے لے آ۔
بات کرتے کرتے ان کی نظر ایک بچی پر پڑی جس نے اپنا عبایہ اتار کر بیگ پہ رکھا تھا۔
چل پتر، برقعہ پا لے، چاچا آ ریا اے، فون بند کرتے ہی انہوں نے بیٹی کو مخاطب کیا، لڑکی نے لپک کر عبایہ پھر سے پہن لیا۔
کچھ ہی دیر میں چاچا آپہنچا۔ جینز، جیکٹ، بالوں کی پونی اور ایک کان میں بالی، دونوں نے مل کر گاڑی میں سامان رکھنا شروع کیا۔ کافی دیر اوپر نیچے کرتے رہے لیکن سامان گاڑی میں نہیں سمایا، اب چاچے نے فون جیب سے نکالا، ہے جیری۔۔ come to airport, need your help..
اوئے، کنہوں بلالیا ای۔۔
او پاا جی، اپنی روزی دا نکا بھراہ اے۔۔
پر یار۔۔ کڑیاں نیں نال۔۔ دو پھیرے لا لیندے۔۔
پاا جی، نہ گھبراؤ۔۔ چنگا منڈا اے، منڈیاں نال ای خوش رہندا اے۔
پاا جی کے چہرے پہ جو فکر مندی کے آثار تھے وہ فورا چھٹ گئے۔
گل سنو، رضیہ دا اک بیگ نہیں ہے گا، فربہ خاتون نے پاا جی کو مخاطب کیا
کیی مطلب اے تیرا؟ کتھے گواچ گیا؟
تہاڈے ساریاں دے دماغ ٹھکانے کوئی نئیں، بے وقوفاں، پاگلاں جئیاں ساریاں میرے گھر ای آ گئیاں نے۔
پاا جی نے گرجنا برسنا شروع کیا۔ لڑکیاں اور ماں دم سادھے سنتی رہیں۔ ہم بھی چپ چاپ کافی پیتے ہوئے یہ تماشا دیکھتے رہے۔ یا اللہ فرینکفرٹ میں بھی وہی کچھ۔ جی اوبھ گیا تو جا کر ایک اور بینچ پر جا بیٹھے۔
کافی تو کب کی ختم ہو چکی تھی۔ شاید اب یوروپا ائیر کا کاؤنٹر کھل چکا ہو، چیک کر لیتے ہیں۔ جی جناب دو لائینیں تھیں کاؤنٹر کے سامنے، لگ گئے ہم بھی ایک میں۔
خوبصورت افریقی لڑکی نہایت پھرتی سے سب کو بورڈنگ کارڈ دے رہی تھی۔ ہماری باری آئی تو اس نے پاسپورٹ پکڑا، پھر گھور کر دیکھا۔۔ کچھ بولی نہیں۔ کچھ دیر پاسپورٹ کی ورق گردانی کی، چہرے پہ تذبذب کے آثار، کیا ویزا ہے تمہارے پاس؟
ہائے کیا اتنے مشکوک نظر آ رہے ہیں ہم؟ جسے دیکھو پوچھ رہا ہے ویزا ہے؟ ویزا نہ ہوتا تو کیا آج فرینکفرٹ میں تمہارے سامنے دھڑلے سے یوں کھڑے ہوتے؟
شینگن ویزا لگا صفحہ ڈھونڈا اور پیش کر دیا اس کے حضور، بورڈنگ پاس دیتے ہوئے بولی، سامان کتنا ہے تمہارے پاس۔
کوتوال نے کہاتھا صرف ہینڈ کیری لے کر جانا۔
کیا مطلب؟
تم نہیں سمجھو گی پیاری لڑکی۔۔ ایک کوتوال ہے جو نیویارک میں رہ کر بھی ہماری ہر بات مانیٹر کرتا ہے۔ کیا کھایا؟ کیا پیا؟ کتنی دیر سوئیں؟ سامان زیادہ تو نہیں لاد لیا؟
میں تمہارا ہینڈ کیری بک کر رہی ہوں فری آف چارج، وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
بھئی آج تو کائنات کی سب طاقتیں باہر نکل آئیں ہمیں مزہ کروانے، بہت شکریہ پیاری لڑکی، یقیننا تم بھی ایک کوتوال ہو، اور تم نے اپنی ہم قبیلہ کی صدا سن لی ہے۔
بورڈنگ کارڈ کے بعد سکیورٹی چیک تو تھا مگر امیگریشن کی نیلی پیلی آنکھیں پیچھے رہ چکی تھیں۔ ہم یورپ میں داخل ہو چکے تھے اور اب درمیان میں کسی سرحد پہ کوئی چیکنگ نہیں تھی۔
بورڈنگ پاس لے کر گیٹ نمبر D21کی طرف چلے۔ بہت سے لوگ، گہماگہمی، مگر کوئی انتشار یا بوکھلاہٹ نہیں، اپنے یہاں کے ہوائی اڈے یاد آگئے جہاں لگتا ہے کوئی قیامت آ چکی یا آنے والی ہے۔
چیختے چلاتے، دوڑتے بھاگتے، ایک دوسرے کو ڈانٹتے، بچوں کو دھمکاتے، سامان گراتے اٹھاتے، دھکے دے کر اپنی جگہ بناتے، اونچی آواز میں فون پہ بات کرتے، آہو آہو، سامان کلیر ہوگیا اے، پر اچار نئیں جان دتا، لکھ منتاں کیتیاں پر نئیں منے، ہاں ہاں یاد اے تیری فرمائش وی، جلدی کلاں گا۔
آہ ہا، کمبل ہمیں چھوڑتا نہیں چاہے کہیں بھی چلے جائیں۔
بورڈنگ میں کچھ دیر تھی سو شیشوں والی دیوار کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، جو اصلی کو شرماتا تھا۔ اردگرد شیشوں سے نرم رو سی دھوپ آ رہی تھی، فضا میں سکون تھا۔ کچھ لوگ بیٹھے کتابیں پڑھ رہے تھے، کچھ کانوں میں ہینڈ فری لگائے فون پہ بات کر رہے تھے۔
آہ ہا یہ زندگی، اور وہ زندگی، ایک ہی وقت اور ایک ہی زمین۔
بورڈنگ کا اعلان ہو رہا تھا۔ لیجیے جناب ہم چلے میڈرڈ، چلو تسی وی ساڈھے نال۔ گھومیں گے پھریں گے، عیش کریں گے، اور کیا؟