Allah Miyan Ke Naam Aik Khat
اللہ میاں کے نام ایک خط!
"تمہیں علم ہے کیا کہ تم اپنے گھر کے مردوں کے لئے کتنا بڑا امتحان بن چکی ہو"
ارے وہ کیسے؟" ہم متعجب ہوئے۔
"عورت اور ہر بات میں اعتراض" جواب ملا۔
"دیکھیے، میرا خیال ہے کہ میں نے قبر میں بھی تنہا اترنا ہے اور اللہ میاں کے سامنے بھی خود ہی حاضری دینی ہے" ہم سہج سے بولے۔
"جی نہیں، تمہارے گھر کے مردوں سے سوال کیا جائے گا تمہارے اعمال (زیر لب " کرتوت") کے متعلق، اور پھر اپنی ذمہ داری نہ نبھانے پہ سزا سے بھی نوازا جائے گا" مطلب یہ کہ بزور شمشیر اس عورت کو قابو میں کیوں نہیں رکھا؟) ہم تو ہک دک رہ گئے۔ یعنی کیا معنی؟
ہمارے پیارے ابا جی، تین بھائی، شوہر اور دلارا بیٹا۔ یعنی سب کے سب مورد الزام؟
اگلے ہی لمحے خیال آیا کہ ابا کو رخصت ہوئے تو اکیس برس گزر گئے اور دم آخریں بھی ان کے لبوں پہ ہمارا ہی نام تھا۔ گمان غالب ہے کہ ان کی آنکھوں کی جوت ہمیں دیکھ کے بڑھ جاتی تھی۔ آج اگر حیات ہوتے تو اس راستے پہ ہمیں پا پیادہ چلتے دیکھ کے نہ صرف سر فخر سے تن جاتا بلکہ ہماری راہ کے سنگ سمیٹنے کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہتے۔
بھائیوں اور شوہر نے حتی المقدور کوشش کی کہ ہم چھوئی موئی بن کے آنکھیں جھکا کے اور گونگے کا گڑ کھا کے زندگی کی اونچ نیچ سے گزر جائیں لیکن ہم وہ کیسے بن سکتے تھے جس کا خمیر اللہ کی طرف سے عطا نہ ہوا۔
سو ان کی خرابی قسمت کہ سادات خاندان میں ایک کالی بھیڑ آ دھمکی۔
رہا راج دلارا، اکھیوں کا تارا، اکلوتا لخت جگر حیدر، ارے کیا وہ بھی اماں کے لچھن کی سزا بھگتے گا؟ ایک گھونسا سا لگا بالکل ایسے، جیسے کسی نے کھینچ کے تیر جگر میں دے مارا ہو۔
اب کیا کریں؟ کیسے نکلیں اس مشکل سے؟ ارے ہم تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے رب سے خود ہم کلام ہونا چاہتے ہیں۔ اپنا حساب کتاب، اپنے اعمال کی گٹھڑی خود ہی مالک کے حضور پیش ہو کر کھولنا چاہتے ہیں۔ شہ رگ سے بھی قریب تر کو اپنی کہانی کیا کسی اور کی زبانی سنائیں؟
لیجیے حل سمجھ آ گیا کہ جب وہ وقت ہو کہ اللہ ہمارے گھر کے مردوں کو لائن حاضر کر کے ہمارے متعلق پوچھ گچھ کرے تو ان کے پاس کوئی ایسی دستاویز ہو جس سے وہ ہمارے اعمال کی پوٹلی سے بری الذمہ ٹھہرائے جائیں۔
دیکھیے یہ رقعہ کیا کہتا ہے۔
"کائنات کے رب! تو جو عادل و منصف ہے، تو جو دلوں کے بھید جانتا ہے، تو جو شہ رگ سے بھی قریب ہے، تو جو پتھر میں پائے جانے والے کیڑے کی بھی سنتا ہے۔ تو جو کائنات میں پائی جانے والی ادنیٰ مخلوق سے لے کر اعلیٰ تک کا خالق ہے اور سب سے بلا تفریق ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔
ہم کیسے تسلیم کریں یارب کہ روز حشر تو ہماری کہانی ہم سے سننے کی بجائے کسی اور کے لبوں سے سنے گا۔ ہم سے جواب طلب کرنے کی بجائے کسی اور کی طرف دیکھے گا؟ اپنی رحمت سے ہمیں محروم رکھے گا۔
ہم جو ساری عمر اس دنیا میں خاموش لبوں کے ساتھ اس امید پہ زندگی کے خار چنتے ہوئے تیرے در تک پہنچے کہ تو ہو گا اور ہم ہوں گے۔ تجھے حال دل اور داغ دل کہنے کے لئے ہم بے تاب ہوں گے۔ تیری محبت و الفت و رحمت میں بھیگنے کی امید ہو گی۔ تیرے حضور روبرو کھڑے ہونے کا چاؤ ہوگا۔
اے پالنے والے، تیرے ابن آدم کو نہ جانے کیوں یہ خیال ہے کہ اس دنیا میں تو نے اسے ہمیں ہانکنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ تو ہمارے ہر فعل کی جواب دہی ان سے کرے گا۔
ہماری تجھ سے ہاتھ جوڑ کے گزارش ہے کہ رقعہ حامل ہذا کو اس عمل سے مت گزاریو۔ ان سے ہمارے متعلق سوال و جواب کی منزل کو دور کیجیو کہ اس مقام پہ تیرے حضور کھڑے ہونے کے ہم شدت سے تمنائی ہیں۔ ہم ستر ماؤں سے زیادہ مہربان مالک کے دربار میں اپنی عرض خود گزارنا چاہتے ہیں۔ ہمیں تیری رحمت سے کامل یقین ہے کہ تو ہماری اس درخواست کو رد نہیں فرمائے گا۔
تیری ہی بنائی ہوئی ایک مخلوق: عورت!
(اس رقعے کے کاپی رائٹس ہر گز محفوظ نہیں ہیں۔)
یقین جانیے ہم پہ غیب سے مضامین قطعی وارد نہیں ہوتے۔ یہ تو آپ کے رنگا رنگ چٹکلے ہیں جو ہمیں لکھنے پہ اکساتے ہیں۔ علی افتخار جعفری نے کیا خوب کہا تھا۔
راہ کے پتھر کی جگہ کاسہ سر رکھتا ہوں
خلق پر آپ کی ٹھوکر کی حقیقت تو کُھلے