Akhri Operation
آخری آپریشن
ہم چوبیس مئی کو آپا کو چھوڑ کر لاہور سدھار چکے تھے۔ جہاں داخلے کی خوشی تھی وہاں رہ رہ کر آپا کا خیال آتا تھا کہ ہماری اور آپا کی بچپن سے ہی بہت بنتی تھی اور دس برس کی چھوٹائی بڑائی کے باوجود ہم بڑی چھوٹی بہن سے زیادہ غم خوار سہیلیاں زیادہ تھے۔
اور اب بیمار و لاغر آپا اکیلی رہ گئی تھیں۔
ابا کا لکھا ہوا پہلا خط جب ہمیں ملا تو اس میں آپا کا ذکر یوں تھا۔
"رات آپ کے جانے کے بعد عزیزی فاطمہ کبری بہت روئی۔ تمہاری امی جان اور میں نے اسے بہت دلاسہ دیا اور کہا کہ آپ گرمیوں کی چھٹیوں میں گھر آ ہی جائیں گی انشااللہ۔
آج پچھلے پہر اسلام آباد سے سکینہ اور نبیلہ ریحانہ کو ساتھ لے کر عزیزی فاطمہ کبری سے ملنے آئیں تھیں۔ اللہ تعالی اپنے بندوں کی دلجوئی کا سامان پیدا کرتا ہی رہتا ہے"
سکینہ، نبیلہ اور ریحانہ آپا کی قریبی سہیلیاں تھیں۔ ابا کا خط پڑھ کر پہلے جی برا ہواکہ ہمارے نکلنے کے بعد آپا روتی رہیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ پاس ابا اماں بھی تو ہیں جن کے نزدیک وہ جان سے بھی پیاری تھیں۔ یہاں یہ بات بتاتی چلوں کہ ہمارے ابا شادی شدہ بیٹی کے مطلو قطعا یہ نہیں سوچتے تھے کہ شادی کے بعد ماں باپ بیٹی کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتے۔ ان کے نزدیک تو بیٹی بس بیٹی تھی۔۔ مرتے دم تک۔
ہمارے جانے کے بعد ہماری ڈیوٹی بھائی اور بہنوئی نے سنبھال لی۔ کلاسٹومی بیگ تبدیل کرنا کسی کے لیے بھی کوئی مسلہ نہیں تھا۔ آخر آپا تو سب کو پیاری تھیں نا۔
آپا کا آخری آپریشن ہونے کا وقت ہو چکا تھا یعنی کلاسٹومی ختم کرکے، آنت واپس پیٹ میں ڈالی جانی تھی۔ لیکن اس سب کے لیے انتظار تھا کہ ہم لاہور سے واپس آئیں اور آپا کا آپریشن کروایا جائے۔ وجہ یہ تھی کہ ہم چھوئی موئی تو تھے نہیں کہ بات کرتے ہوئے منہ سے آواز ہی نہ نکلے، بات کرتے تھے تو دھڑلے سے اور بھاگم دوڑ بھی خوب کرتے تھے سو امی ابا کو ہماری اور بھائی طاہر کی موجودگی میں خوب اطمینان رہتا تھا کہ طاہر / طاہرہ ہر کام بخوبی سنبھال لیں گے۔
رمضان میں کالج بند ہوا اور ہم تیرہ جون کو واپس آئے۔ ہماری واپسی پہ گھر میں جشن کا سا سماں تھا۔ ہمارے پاس بے شمار قصے کہانیاں تھیں جو ہم سارا دن سناتے تھکتے نہیں تھے۔ بے فکر رہیے ان کا احوال بھی ہم لکھیں گے مگر آپا کی بیماری کی تفصیل کے بعد۔
تیس جون کو عید الفطر منائی گئی اور تین جولائی کو آپا دوبارہ ہسپتال داخل ہوئیں۔ چار یا پانچ جولائی کو ان کا آپریشن ہوا۔ ہمارا کالج سات جولائی کو کھلنا تھاسو ہمیں واپس چھ جولائی بروز جمعہ جانا تھا لیکن آپا کی وجہ سے رک گئے اور لاہور واپسی آٹھ کو ہوئی۔
حیران نہ ہوں یہ تاریخیں ہمیں اس طرح یاد نہیں تھیں مگر ابا کے تفصیل سے لکھے ہوئے خطوں نے بہت کچھ یاد دلا دیا۔
دیکھیے ابا بارہ جولائی 1984 کے خط میں کیا لکھتے ہیں۔
"تمہاری امی جان عزیزی فاطمہ کبری کے ساتھ ہسپتال میں رہتی ہیں۔ صبح نو دس بجے دو گھنٹے کے لیے آتی ہیں اور دوپہر کا کھانا پکا کر واپس چلی جاتی ہیں۔ صبح اور شام کا کھانا رانی تیار کر لیتی ہے۔
عزیزی فاطمہ کبری اب پہلے سے بہت بہتر ہے۔ اسے اب پانچ نمبر وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اب گلوکوز بھی نہیں دے رہے کیونکہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ کھانے کے لیے liquid غذائیں دیتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں کہ تھوڑا اٹھ کر چلا پھرا کرو۔ بہرحال فکر والی کوئی بات نہیں ہے۔ انشاللہ چند دنوں تک وہ گھر آ جائے گی۔
شام کو چونکہ مجھے گھر رہنا ہوتا ہے اس لیے میں دن کے وقت اسے ہسپتال مل کر گھر آتا ہوں"
تئیس جولائی، 1984۔
باقی عزیزی فاطمہ کبری انیس جولائی کو گھر آ گئی تھی۔ اب خیر خیریت سے ہے۔ کمزوری دور ہو رہی ہے۔ زخم مندمل ہو گئے تھے اس وجہ سے ٹانکے نکال دئیے گئے۔ دیگر کوئی فکر کرنے والی بات نہیں۔ اس نے آپ کو الگ خط بھی لکھا ہے جو کہ اس کے ساتھ ہی بھیجا جا رہا ہے۔
تئیس جولائی 1984
پیاری بہن
تمہارے جانے کے کچھ دن بعد سی ایم ایچ والوں نے مجھے وارڈ نمبر پانچ میں شفٹ کر دیا تھا کیونکہ ایچ این سی میں سیریس مریضوں کو رکھتے ہیں۔ کچھ دن بے تحاشا تکلیف رہی لیکن اب کچھ ٹھیک ہوں۔ پیٹ پر کافی جگہ پر ٹانکے لگے ہوئے تھے اب نکل گئے ہیں۔ لیکن زخم ابھی پوری طرح مندمل نہیں ہوا۔ انشاللہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔
میری چھٹیاں بھی کم رہ گئی ہیں۔ ایک ماہ سے تو کم ہیں۔ اس لیے میں چلنے پھرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں۔ اگر چہ تھک جاتی ہوں لیکن چاہتی ہوں کہ جلد سے جلد سنبھل جاؤں۔ ویسے اب مجھے درد نہیں ہوتا بس کمزوری بہت ہے۔
مریم کے لیے ہم واکر لائے ہیں اور چونکہ اس میں پاؤں اور ناخن گھسٹتے تھے اس لیے چھوٹا سا سفید جوتا بھی منگوا کر دیا ہے۔
یہاں پر سب تمہیں بہت یاد کرتے ہیں۔ اچھا خداحافظ۔ اپنا خیال رکھنا۔
تمہاری بہن۔
لیجیے جناب یہ ہے وہ کہانی جو مارچ سے طبعی زچگی سے شروع ہوئی اور پھر نہ جانے کس کس آپریشن سے ہوتے ہوئے بظاہر جولائی میں ختم ہوئی مگر آپا کو ساری عمر کے لیے ہیپاٹائٹس سی کا تحفہ دے گئی اور ساتھ میں ایک ایسا جسم جو بہت جگہ سے کٹا پھٹا تھا۔
بہر حال ہماری آپا زندہ بچ گئی تھیں ہم سب اسی پہ بہت خوش تھے۔