Fiqa Islami Aur Qanoon Roma Aik Taqabuli Jaiza (2)
فقہ اسلامی اور قانون روما ایک تقابلی جائزہ (2)
شاید ان کی مستمرانہ خود پسندی نے یہ گوارا نہیں کیا کہ کسی غیر یورپی اور غیر سی تہذیب کی عظمت کا کوئی پہلو تسلیم کریں۔ انہوں نے یہ دعویٰ شروع کر دیا کہ اسلامی قانون رومن لاء سے ماخوذ ہے۔ انیسویں صدی کے وسط سے بعض لوگوں نے یہ دعوے کرنے شروع کر دیئے تھے۔ اور ان دعوؤں کی بنیاد پر کتاہیں اور مضامین لکھے جانے لگے تھے۔ مسلمانوں میں کمزور ایمان رکھنے والے بعض لوگوں کو یا شریعت کا علم نہ رکھنے والے بعض مغربی قانون دانوں کو یہ بات ذہن نشین کرا دی گئی کہ فقہ اسلامی کا سارا ذخیر ہردما سے ماخوذ ہے۔
فقہ اسلامی کی قانون روما سے بے اعتنائی:
فقہ اسلامی اور قانون روما کے موازنہ پر یہ اشارات جو ذرا طویل ہو گئے یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہونگے کہ فقہ اسلامی ایک مستقل بالذات نظام قانون ہے اور کسی بھی طرح قانون روما کا مرہون منت نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ و تذکرہ کی کسی بھی قدیم و جدید کتاب میں اس امر کا ادنٰی سا بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ کسی فقیہ یا غیر فقیہ مصنف نے رومی یا بازنطینی قوانین سے دلچسپی لی ہو، ان کا مطالعہ کیا ہو یا ان سے جزوی واقفیت حاصل کی ہو۔
فقہی مذاہب و مسالک کا ظہور کوفہ، بصرہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ یا آگے چل کر بغداد میں ہوا جو خالص اسلامی آبادیاں تھیں۔ ان اسلامی بستیوں میں نہ رومی اثرات پائے جا سکتے تھے نہ بازنطینی۔ آخر مدینہ منورہ میں امام مالک اور ان کے اساتذه امام نافع اور ابوالزناد نے کس طرح اور کن ذرائع سے قانون روما کے تصورات سے واقفیت حاصل کی۔ امام شافعی نے مکہ مکرمہ میں جب ان کی فقہی بصیرت کی تشکیل ہو رہی تھی کیونکر قانون روما تک رسائی حاصل کی؟ یہی سوال بقیہ فقہاء اور مجتہدین کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فقہ حنفی کا بیشتر ارتقاء ماوراء النہر اور عراق عجم کے علاقوں میں ہوا جو رومی اثرات سے باہر تھے۔ علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے نہ صرف فقہ اسلامی کے تشکیلی دور، یعنی ابتدائی چار ہجری صدیوں میں، بلکہ بعد میں کم و بیش مزید آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے قانون کی کسی کتاب کا عربی میں ترجمہ نہیں کیا۔ نہ صرف رومن زبان سے بلکہ مغرب و مشرق کی کسی زبان سے بھی قانون کی کسی کتاب کا عربی میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔
اگر آپ نے اسلام کی تاریخ میں یونانیوں کے علوم و فنون کے ترجمہ کی تفصیل پڑھی ہو تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ مسلمانوں نے یونانیوں کے علوم و فنون کی بہت سی کتابیں عربی میں ترجمہ کیں۔ افلاطون اور ارسطو کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں۔ سقراط، بقراط اور حکیم جالینوس کی کتابیں ترجمہ ہوئیں۔ منطق، فلسفہ اور طب پر سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں کتابیں مختلف زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئیں۔ لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ قانون یا دستور کے موضوع پر کوئی بھی کتاب عربی زبان میں ترجمہ ہوئی ہو۔
پہلی صدی ہجری سے لے کر گیارہویں بارہویں صدی ہجری تک ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ قانون کی کوئی کتاب عربی میں ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کا قانون اور فقہ اتنا مرتب اور منظم تھا کہ مسلمانوں نے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو قانون کے میدان سے تعلق رکھتی ہو اور دنیا کی کسی دوسری قوم کے پاس موجود ہو۔
جو بات قانون روما کے بارے میں کہی گئی وہی بات دنیا کے دوسرے قوانین کے بارے میں بھی کی جا سکتی ہے۔ قدیم قوانین میں قانون روما نسبتاََ زیادہ مرتب اور سکت جان تھا۔ قانون روما ہی کے علمبردار شاید اسی جسارت کر سکتے تھے کہ ایسا بے بنیاد اور کمزور دعویٰ کریں جو تحقیق کی میزان میں اتنا ہلکا ثابت ہو۔ دوسری اقوام نے ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ ہندوؤں نے تو کبھی اس امر کا کوئی سنجیدہ دعویٰ نہیں کیا کہ مسلمانوں نے کوئی قابل ذکر چیز ان سے لی ہے۔
یہودیوں کے پاس اگرچہ ایک مرتب اور منظم قانون زمانہ قدیم سے چلا آ رہا ہے لیکن انہوں نے ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ فقہ اسلامی ان کے ذخائر سے ماخوذ ہے۔ قرآن مجید کی طرف سے ان کی شریعت کے آسانی شریعت ہونے کا اعتراف کئے جانے کے باوجود یہودی اہل علم نے کبھی بھی ایسا دعویٰ نہیں کیا۔ بدہسٹوں کے پاس تو سرے سے کوئی قانون ہی نہیں تھا۔ انہوں نے اخلاق کو ہی کافی سمجھا۔ عیسائیوں نے از خود قانون تورات کو منسوخ قرار دے کر چند اخلاقی نعروں پر اکتفاء کر لیا۔ ان کو یہ دعویٰ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی کہ فقہ اسلامی ان کے افکار سے ماخوذ ہے۔
اس لئے ان مثالوں کے بعد ہم پورے یقین سے بلاخوف تردید یہ دعویٰ تسلیم کر سکتے ہیں کہ فقہ اسلامی تمام تر، سو فیصد قرآن پاک اور سنت حضرت محمد رسول الله خاتم النبیین ﷺ کے اصولوں پر قائم ہے۔ فقہائے اسلام کو جو اجتہادی بصیرت الله تعالیٰ نے عطا کی تھی، فقہ اسلامی کی تمام تر وسیع اس پر مبنی ہے۔ اور اس کا سارا کا سارا ارتقاء فقہائے اسلام، مفسرین قرآن اور شارحین حدیث کا مرہون منت ہے۔
مسلمانوں کا جن اقوام سے قریبی واسطہ رہا، مثلاََ یہودی اور عیسائی، ان کے بھی کسی ذمہ دار صاحب علم نے اپنے کسی مذہبی تصور یا عقیدہ کے فقہ اسلامی پر اثر انداز ہونے کا دعویٰ نہیں کیا۔ عیسائیوں کے ہاں تو سرے سے کوئی قانون ہی نہیں تھا۔ عیسائیت کے تو روز آغاز ہی میں قانون تورات کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ لیکن یہودیوں کے ہاں ایک مرتب قانون لکھا ہوا موجود تھا۔
اس پر کتابیں بھی موجود تھیں اور خود مدینہ منورہ میں یہودیوں کا مدرسه دینی درس گاہ موجود تھی، جہاں یہودی قانون کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لیکن نہ یہودیوں نے اس کا دعویٰ کیا کہ فقہ اسلامی کی تدوین و توسیع میں ان کے مدارس کا کوئی دخل ہے۔ نہ مسلمانوں کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ یہودیوں سے بھی ان کے قانون کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کی جائیں۔