Fiqa Islami Aur Qanoon Roma Aik Taqabuli Jaiza (1)
فقہ اسلامی اور قانون روما ایک تقابلی جائزہ (1)
تاریخ:
سلطنت روما دنیا کا دوسرا قدیم ترین قانون ہے۔ پہلے نمبر پر حموربی، دوسرے پر روما اور پھر شاید ہندوؤں کا منوشاستر۔ یہ وہی قانون ہے جس پر اہل مغرب کو آج بھی ہے۔ دی رومن لاء۔ یہ وہ قانون ہے جس کا آغاز بھی قبل مسیح چوتھی یا پانچویں صدی سے ہوتا ہے یہ قانون پہلی بار 450 قبل مسیح میں بارہ تختیوں پر مرتب انداز میں لکھا گیا۔ رائج الوقت رسوم و رواجات کی تدوین سے ہی عبارت ہے۔ کچھ احکام یونانیوں سے ماخوذ بتائے جاتے ہیں۔
مذہبی مراسم اور جنازہ اور میت کے احکام بھی شامل ہیں۔ دوٹوک انداز کی بجائے شاعرانہ اور مبالغہ آمیز اسلوب اپنایا گیا ہے۔ قانونی احکام بہت سخت اور بعض جگہ ناقابل عمل انداز کے تھے۔ یہ قانون مسلسل ترقی کرتا ہے۔ کئی بار لکھا گیا۔ اہم تدوین کی مثال وہ قانون ہے جو حضرت محمد خاتم النبین ﷺ کے بہت بچپن کے زمانے میں مرتب کیا گیا۔ غالبا جب رسول اللہ ﷺ کی پیدائش کو چند سال ہوئے ہوں گے۔ اس وقت فرمانروا جسٹینین نے یہ احکام از سر نو مرتب کروائے تھے۔
فقہ اسلامی اور قانون روما میں فرق:
سلطنت روما کے اثرات کی اہمیت فقہ اسلامی کے طلبہ کے لئے ایک اعتبار سے اس لیے پیدا ہو جاتی ہے کہ بہت سے مغربی مستشرقین نے آج سے تقریباََ ڈیڑھ پونے دو سو سال پہلے یہ دعویٰ کیا کہ فقہ اسلامی قانون روما سے ماخوذ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب انہوں نے فقہ اسلامی کے ذخائر کا مطالعہ کیا اور یہ دیکھا کہ اتنی وسیع و عریض فقه، اتنا منظم، اتنا گہرا، اتنا عمیق اور اتنا سائنٹفک نظام قانون مسلمانوں کے پاس موجود رہا ہے، تو شاید ان کے حاکمانہ مزاج نے یہ گوارا نہیں کیا کہ مسلمانوں کی اس عظمت کا اعتراف کریں۔
ان کے مستعمرانہ مزاج اور ذہن نے یہ بات قبول نہیں کی کہ مسلمان فقہاء کے اس کارنامے کو تسلیم کریں۔ لہٰذا انہوں نے یہ بے بنیاد دعویٰ شروع کر دیا کہ اسلام کا قانون روما کے قانون سے ماخوذ ہے۔ ان کے اس دعویٰ کی تصدیق یا تردید کرنے کے لئے فقہائے اسلام نے قانون روم کا مطالعہ شروع کیا۔ گزری صدی میں بڑی تعداد میں علمائے اسلام نے رومن لاء کا مطالعہ کیا اور تحقیق سے یہ ثابت کر دیا کہ رومن لاء کا اسلامی قانون کے ارتقاء پر ذرہ برابر اثر نہیں ہے۔
وہ تمام شواہد اور دعوے جو رومن لاء کے اثرات کے بارے میں کئے گئے تھے اور کئے جاتے رہے وہ سب کے سب بے بنیاد اور غلط تھے۔ رومن لاء کی ترتیب، اس کے بنیادی مضامین، اس کے احکام اور اساسی تصورات، یہ سب کے سب فقہ اسلامی کی ترتیب، مضامین اور بنیادی تصورات کے ساتھ ہر اعتبار سے متعارض ہیں۔ فقہ اسلامی کے بنیادی مضامین کیا ہیں۔ ان پر آگے چل کر گفتگو ہوگی۔ لیکن رومن لاء کے بنیادی مضامین تین تھے۔
1: اشخاص persons کا قانون
2: اشیاء things یعنی چیزوں اور پراپرٹی کا قانون
3: اعمال actions کا قانون
گویا افراد، اشیاء اور اعمال۔ ان تین شعبوں میں انہوں نے رومن لاء کو تقسیم کیا ہے۔ اشخاص کے تحت شہریوں اور اجنبیوں کے حقوق و فرائض پر بحث ہوتی ہے۔ خاندان اور نکاح کے امور کا تذکرہ ہوتا ہے۔ غلامی اور گارجین شپ کے معاملات بیان ہوتے ہیں۔ اشیاء کے تحت جائیداد، حق قبضہ اور ملکیت وغیرہ کے امور سے بحث ہوتی ہے۔ جبکہ اعمال اور ذمہ داریوں کے باب میں معابده، جرائم، جانشینی، ہدایا اور وصایا جیسے امور شامل ہیں۔
آپ فقہ کی کوئی کتاب اٹھا کر دیکھئے۔ قدیم یا جدید وہ امام شافعی کی کتاب الام یا امام مالک کی موطا ہو یا آج کے کسی فقیہ کی کوئی کتاب ہو، مثلاََ شیخ وھبہ الزحیلی کی الفقہ اسلامی وادلتہ ہو، یا کوئی اور معاصر مجموعہ فتاوی، آپ کو فقہ اسلامی کی کوئی بھی کتاب ان تین عنوانات کے تحت مرتب نظر نہیں آئے گی۔ اس لئے یہ بنیاد ہی غلط ثابت ہو جاتی ہے اور ابتداء ہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فقہ اسلامی کا سارا آغاز و ارتقاء صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر اور فقہائے اسلام کی اجتہادی بصیرت کی روشنی میں ہوا۔ اس کا کوئی تعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ رومن لاء سے نہیں رہا۔
رومن لاء کے ماخذ و مصادر بھی فقہ اسلامی کے مصادر و مآخذ سے بالکل مختلف ہیں۔ یعنی بادشاہوں کا دیا ہوا مدون قانون، مجسٹریٹوں کے دیئے ہوئے فیصلے اور بادشاہوں کے مقرر کئے ہوئے ماہرین قانون کے فیصلے اور مشورے، یہ رومن لاء کے مصدر اور ماخذ ہیں۔ فقہ اسلامی میں ان میں سے کوئی بھی چیز نہیں پائی جاتی۔ فقہ اسلامی نہ تو کسی بادشاہ کا دیا ہوا قانون ہے نہ یہ کسی مجسٹریٹ کے دیئے ہوئے ضابطے ہیں، نہ یہ بادشاہوں کے مقرر کئے ہوئے کسی مشیر کے مشورے ہیں۔ کسی بادشاہ یا کسی حکمران کا فقہ اسلامی کی ترتیب و تدوین میں کبھی بھی کوئی حصہ نہیں رہا۔
فقہ اسلامی میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ فرض بھی کیا جا سکے کہ یہ قانون روما سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ماخوذ تھی۔ فقہ اسلامی اور قانون روما دونوں سے سرسری واقفیت رکھنے والا طالب علم بھی یہ بات نوٹ کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان دونوں نظاموں میں تصورات کا بنیادی اختلاف موجود ہے۔ قانون روما کے بعض بنیادی احکام اسلام کی اساسی تعلیمات سے متعارض ہیں۔ اس قانون کے بعض احکام ایسے ہیں جو اسلام کے تصور عدل کے خلاف ہیں۔ یہ احکام نہ صرف اسلام کے تصور عدل کے خلاف ہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی متمدن نظام ان تصورات کو آج قبول نہیں کرتا۔
خود روم میں وہ تصورات آج ناقابل قبول ہیں کہ اگر کوئی مقروض شخص قرض ادا نہ کر سکے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ اور اگر قرض کی رقم تھوڑی واجب الادا ہو تو مقروض کو قرض دار کا غلام بنا دیا جائے۔ یہ بات آج کا یا ماضی کا کوئی بھی انصاف پسند انسان قبول نہیں کرے گا۔ اس کے باوجود انیسویں صدی میں جب مغربی محققین نے یہ بات دیکھی کہ فقہ اسلامی دنیا کی تاریخ کا سب سے منظم، سب سے مرتب اور سب سے وسیع نظام قانون ہے تو شاید یہ بات ان کو پسند نہیں آئی۔