Sooli Pe Charhana Wajib Hai
سولی پر چڑھانا واجب ہے
امیر جماعت اسلامی پاکستان محترم سراج الحق صاحب کی حالیہ پڑھی ہوئی نظم نے پورے پاکستان کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ جس نے آج مجھے مجبور کر دیا کہ میں اس پہ لکھوں۔ امیر جماعت نے اپنے دبنگ لہجے میں قوم کو پکارا ہے اور ایک لمبی لسٹ دی ہے۔ جس میں پاکستان کے بے بس اور نادار لوگوں کے مسائل کی نمائندگی کی ہے۔
جس دیس میں ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس میں قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کے کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس میں قاضی منشی بھی مجرم سے پوچھ کر لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہیں
جس دیس کے مندر مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہیں
جس دیس میں غربت ماؤں سے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفاء سے غلط کام کراتی ہو
جس دیس میں آٹا چینی کا بحران فلک تک پہنچ جائے
جس دیس میں پانی بجلی کا فقدان حلق تک پہنچ جائے
اس دیس کے ہر لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر حاکم کو سولی پر چڑھانا واجب ہے
ایک ایسی دنیا جو ترقی اور مساوات کی خواہش رکھتی ہے، ایسے ممالک موجود ہیں جہاں انصاف اور ہمدردی کی بنیادیں بدعنوانی، عدم مساوات اور سماجی بدامنی کے بوجھ تلے دب جاتی ہیں۔ یہ کالم ایک ایسی قوم کی افسوسناک حالت پر روشنی ڈالتا ہے جہاں کمزوروں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا جائے اور طاقتور احتساب اور سزا سے بچ جاتا ہے، انصاف ایک خریدی اور بیچی جانے والی شے بن کہ رہ گئی ہے۔ اب لوگ وکیل نہیں جج کرتے ہیں۔ اس نظم میں امیر جماعت نے بہت سے مسائل اور سوالات اٹھائے ہیں اور ساتھ میں مطالبہ بھی کیا ہے کہ جس میں قیادت سے سوال کرنے اور اقتدار میں رہنے والوں کو ان کے اعمال کے لیے جوابدہ ٹھہرانے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
پاکستان میں ماؤں اور بہنوں کے حقوق اور ان کی حفاظت کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ مادر ملت فاطمہ جناح ہوں یا بینظیر بھٹو، سب آپ کے سامنے ہے۔ عافیہ صدیقی کو امریکی حکام کہ حوالہ سے نظم کو شروع کیا گیا اور کہا کہ معاشرہ ان کی حفاظت کرنے میں ناکام رہا ہے، انہیں مشکلات اور ناانصافیوں کو برداشت کرنے کے لیے اکیلا دشمنوں کے حوالہ کیا گیا۔ اور اس کہ بدلے چند ٹکے اور کچھ سالوں کی حکمرانی خیرات میں لی گئی۔
ملک کی اشرافیہ، اکثر اپنے ذاتی مفادات کے لیے مجرموں کو بچانے اور ان کی حفاظت کے لیے نظام اور نظام عدل میں ہیرا پھیری کرتی ہے۔ انصاف کی یہ تحریف استثنیٰ کے کلچر کو تقویت دیتی ہے، جہاں چند مراعات یافتہ افراد اپنے اعمال کے نتائج سے بچ سکتے ہیں۔ جبکہ پسماندہ اور غریب افراد اس کے نتائج بھگتتے ہیں۔ ہر لیڈر کے پاس ان غنڈوں کی فوج موجود ہے جن کی پشت پناہی کرکے الیکشن جیتا جاتا ہے اور اپنے مخالفین کو دبایا جاتا ہے۔
انصاف برائے فروخت ہے۔ کمرہ عدالت کی حدود میں، انصاف اپنا تقدس کھو بیٹھا ہے۔ انصاف کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا ادارہ ہی ایک بازار بن جاتا ہے، جہاں انصاف کی خرید و فروخت کھلے عام ہوتی ہے۔ اب لوگ وکیل نہیں جج کرتے ہیں ایک حقیقت بنتی جارہی ہے۔ انصاف تو اب ٹکوں کے بھاو ملتا ہے۔ بس پیسہ، طاقت اور بکاو وکیل کا ہونا شرط ہے۔ قانون کی بالادستی اور معاشرے کی رہنمائی کے ذمہ دار ادارے بھی ان بکاو قاضی منشیوں کی طرح بدعنوانی کا شکار ہوئے پڑے ہیں۔ انصاف کے سہولت کاروں کے طور پر ان کا کردار داغدار ہے کیونکہ وہ مجرموں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور ان کے اعمال میں برابر کے شریک ہیں۔ مجرم کے وکیل کے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہوئے فیصلے اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اپنی مرضی کا فیصلہ کرانے کے لیے بس نوٹوں کی بوریاں کھولنی پڑتی ہیں۔
پورے ملک میں پولیس اور رینجرز کے ناکوں کی وسیع موجودگی اور ان کے باوجود شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی کوئی گارنٹی نہیں۔ الٹا یہ ناکے عوام کے لیے کسی مستقل عذاب سے کم نہیں۔ مساجد ہوں یا اقلیتوں کی عبادت گاہیں، کوئی محفوظ نہیں۔ ان میں دھماکے تو اب روز کی بات ہے۔ عوام تو اب اتنا بے حس ہو چکی ہے، جب تک کوئی اپنا نہیں مرتا تب تک ان کے کان پہ بھی جوں نہیں رینگتی۔ اور اسی بات کا حکمران 75 سال سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
امیر جماعت نے اس پاکستان کا نقشہ کھینچا ہے جہاں ملک میں پھیلی ہوئی غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر، مایوس کن حالات میں مائیں اپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہیں۔ کبھی کسی دولت مند کا نوکر بنا کر اور کبھی جوان بچیوں کو بازار میں گوشت کے بھاو بیچ کر۔ نظم میں بہت بھیانک تصویر کشی کی گئی ہے۔
اعلیٰ عہدوں پہ فائز سرکاری لوگ ہوں یا دولت کے انبار تلے دبے ہوئے فرعون۔ یہ لوگ اخلاقی گراوٹ سے محفوظ نہیں ہیں۔ ان کی دولت اور اثر و رسوخ اکثر و بیشتر انہیں سزا سے بچاتی ہے اور انہیں نتائج کا سامنا کیے بغیر غلط کاموں میں ملوث ہونے کے قابل بناتی ہے۔ اور یہ امر دولت مند اور غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔
اشیائے ضروریہ کا بحران 75 سال سے کم ہونے پہ ہی نہیں آ رہا۔ ملکی نظم و نسق اس وقت اپنی تنزلی پر پہنچا ہوا ہے جب آٹا، بجلی، دودھ، گھی اور چینی جیسی بنیادی ضروری اشیاء عام لوگوں کے لیے ایک خواب بنتی جارہی ہیں۔ بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں ناکامی ایک نظامی ناکامی کی عکاس ہے جو معاشرے کے پسماندہ طبقات کو غیر متناسب طور پر متاثر کرتی ہے۔ جیسے جیسے ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو رہا ہے، پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی کا فقدان روزمرہ کی بقا کی جدوجہد بنا ہوا ہے۔ ان بنیادی وسائل کی عدم موجودگی شہریوں کی زندگیوں اور معاش کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جس سے ان کی ابتری میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
سیاسی قیادت اور حکومت وقت پر سوال اٹھانا، بلا تفریق احتساب کا مطالبہ کرنا اور عوام کے حقوق کی جنگ جماعت اسلامی کا منشور ہے۔ ایسی قوم میں قیادت اور اقتدار میں رہنے والوں سے سوال کرنا لازم ہوجاتا ہے۔ جہاں انصاف، مساوات اور روشن مستقبل کی بحالی کے لیے ان کے اعمال کا جوابدہ ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ وہ شفافیت کا مطالبہ کرے اور حکومت کرنے والوں سے تبدیلی کا مطالبہ کرے۔ حکمرانوں کا کڑا احتساب ہو، چوروں ڈاکوؤں کو تختہ دار پہ چڑھایا جائے۔ اور ایک مثال قائم کی جائے، جس سے آئندہ آنے والی نسلوں کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔
محترم سراج الحق نے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ حالات پر سوال اٹھائیں اور اپنے لیڈروں سے جوابدہی کا مطالبہ کریں۔ صرف اجتماعی کوششوں اور انصاف کے حصول کے عزم کے ذریعے ہی کوئی قوم اپنے آپ کو ایک ایسی جگہ میں تبدیل کر سکتی ہے جہاں ماؤں اور بہنوں کی حفاظت ہو، انصاف کی بالادستی ہو اور اس کے تمام شہریوں کی بنیادیں ضرورتوں کو ترجیح دی جائے۔ اور حقیقی مدینہ کی ریاست کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔