Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Waqar Azeem
  4. Saniha e Swat, Seyahat Ya Maut? Kuch Sawalat

Saniha e Swat, Seyahat Ya Maut? Kuch Sawalat

سانحۂ سوات: سیاحت یا موت؟ کچھ سوالات

سوات کا دل دہلا دینے والا واقعہ، جہاں ایک ہی لمحے میں 17 قیمتی جانیں سیلابی ریلے کی نذر ہوگئیں، اس بات کا ایک بار پھر ثبوت ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک عوام کی جان کی کوئی قیمت نہیں۔ انسانی جانیں ان کے لیے شاید محض ایک عدد ہیں، نہ دکھ، نہ شرمندگی، نہ اصلاح کی کوشش اور نہ کسی قسم کی ذمہ داری کا احساس۔

سانحۂ سوات، مدینہ کی ریاست کہاں تھی؟ یہ واقعہ اُس خیبرپختونخواہ میں پیش آیا جہاں گزشتہ بارہ سال سے ایک ہی جماعت کی حکومت ہے۔ وہ جماعت جو ہر انتخاب میں تبدیلی، نظام کی اصلاح اور عوامی خدمت کے نعرے لگاتی رہی، مگر آج بھی سیلابی پانی کے بہاؤ کی بروقت اطلاع دینے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ وہ صوبہ جہاں سالہاسال سے لینڈ سلائیڈنگ، سیلاب اور بارشوں کی پیشگوئیاں معمول کی بات ہیں، وہاں ضلعی انتظامیہ کو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کب کون سا دریا بپھرے گا، کہاں رکاوٹ پیدا ہوگی اور کس مقام پر جان لیوا خطرات منڈلا رہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا کھربوں کا بجٹ، مگر ریسکیو ٹیم کے پاس دو لاکھ روپے کی Rope Launching Gun نہ تھی؟

دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر اقوامِ عالم نے ہنگامی پالیسیاں بنا لی ہیں۔ جدید ترین سیٹلائٹ سسٹمز اور ایمرجنسی الرٹس سے عوام کو گھنٹوں پہلے خبردار کر دیا جاتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں نہ کوئی وارننگ سسٹم ہے، نہ انخلا کا منصوبہ، نہ ہی کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی مشق یا تربیت دی جاتی ہے۔ سوات میں جو کچھ ہوا، وہ محض ایک "قدرتی حادثہ" نہیں بلکہ بدانتظامی، مجرمانہ غفلت اور ریاستی ناکامی کی ایک دلخراش مثال ہے۔ سوال یہ ہے کہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے گزشتہ بارہ برسوں میں سیاحتی مقامات پر ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ہر سال اربوں روپے کے ترقیاتی بجٹ کہاں خرچ ہو جاتے ہیں؟ کیا ان بجٹوں سے عوام کی جانوں کے تحفظ کی کوئی سبیل نہیں نکالی جا سکتی؟

وزیر اعلیٰ کا ہیلی کاپٹر ڈیرہ اسماعیل خان اور پشاور کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر اُڑان بھرتا ہے، مگر جس وقت سوات کے لوگ اور سیاح زندگی کی جنگ لڑ رہے تھے، اُس وقت نہ وزیر اعلیٰ دکھائی دیے اور نہ ہی ان کا ہیلی کاپٹر۔ قوم کے یہ بے حس رہنما ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر صرف بیانات جاری کرتے ہیں اور دو تین اہلکاروں کی "معطلی" کو کافی سمجھتے ہیں۔

اور جب یہ سانحہ پیش آ گیا، تو حسبِ روایت حکومت نے صرف دو یا تین افسران کو معطل کرکے اپنی ذمہ داری پوری کر لی۔ گویا سترہ جانوں کا حساب چند قلمی فیصلوں سے چکا دیا گیا۔ ڈپٹی کمشنر اور ایک آدھ تحصیل دار یا مقامی اہلکار قربانی کا بکرا بن گئے، جبکہ اصل مجرم، وہ لوگ جو بارہ سال سے نظام چلا رہے ہیں، وہ بےحسی کی سیاہ چادر اوڑھے آج بھی اپنی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ جان کی قیمت صفر، کیا عوام واقعی انسان ہیں؟

سوال یہ ہے کہ کیا صرف ایک ڈپٹی کمشنر کی معطلی سے یہ سانحہ رُک سکتا تھا؟ کیا ضلعی انتظامیہ کے پیچھے بیٹھے وزراء، مشیران، چیف سیکریٹری اور وزیر اعلیٰ کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی؟ کیا ان سب کی نااہلی اور عدم دلچسپی نے مل کر یہ سانحہ ممکن نہیں بنایا؟ یا پھر ہر بار کی طرح ایک بار پھر عوام کو صرف "دکھ اور افسوس" کا ٹوکن دے کر خاموش کروا دیا جائے گا؟ معطلی کافی نہیں، ہمیں جواب دہی چاہیے!

یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی اسی طرح مری میں درجنوں سیاح برفباری میں پھنس کر دم توڑ گئے۔ ناران، کاغان اور دیگر مقامات پر بدترین سفری بدانتظامی اور مجرمانہ غفلت سے کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ لیکن ان تمام سانحات سے کچھ نہیں سیکھا گیا۔ ہر بار صرف افسوس، تعزیت، نوٹس، کمیٹی اور پھر خاموشی۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کا مطلب صرف اشتہارات، تقریبات اور فوٹو سیشنز تک محدود ہے۔ سیاحتی مقامات پر سہولیات، حفاظتی اقدامات، موسمی خطرات کے لیے الرٹ سسٹمز اور ایمرجنسی ریسپانس سروسز پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ وفاقی حکومت کا حال بھی مختلف نہیں۔ پاکستان کا کوئی سیاحتی مقام ایسا نہیں جہاں حادثات کی تاریخ نہ ہو۔ گویا سیاحت کے شوقین افراد موت کے منہ میں جانے کا رسک لے کر نکلتے ہیں۔ کوئی محفوظ ٹرانسپورٹ، نہ ہنگامی طبی سہولیات، نہ بروقت امداد اور نہ ہی اطلاعات کی فراہمی کا مؤثر نظام۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ ان تمام ناکامیوں پر ہمارے حکمران محض زبانی جمع خرچ سے کام چلاتے ہیں۔ اگر واقعی ان میں انسانیت کی رمق باقی ہو، اگر واقعی وہ عوام کو انسان سمجھتے ہوں، تو انہیں چاہیئے کہ:

1۔ تمام سیاحتی مقامات پر جدید وارننگ سسٹمز نصب کیے جائیں۔

2۔ ضلعی انتظامیہ کو مکمل تربیت دی جائے کہ وہ ہنگامی صورتحال میں فوری ردعمل دے سکے۔

3۔ ایمرجنسی ہاٹ لائنز اور موبائل ایپ کے ذریعے سیاحوں کو بروقت معلومات فراہم کی جائیں۔

4۔ سیاحتی مقامات پر ریسکیو سروسز، ابتدائی طبی امداد اور ہیلی کاپٹر ریسکیو یونٹس ہر وقت الرٹ رکھے جائیں۔

5۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے قومی پالیسی اور نیشنل رسپانس یونٹ تشکیل دیا جائے۔

اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اپنے وسائل، توجہ اور نیت کو اشتہارات سے ہٹا کر اصل مسائل پر مرکوز کرنا ہوگا۔ یہ لوگ، جو اپنی عمر بھر کی کمائی لے کر، اپنے بچوں کے ساتھ چند دن کی خوشی منانے نکلتے ہیں، آپ کے غفلت زدہ نظام کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔ یہ لوگ سوئٹزرلینڈ یا لندن نہیں جا سکتے، انہیں اپنے وطن میں ہی محفوظ سیاحت کا حق دیا جائے۔ کیا سوات کی چیخیں ایوانوں تک پہنچیں گی؟ آخر میں ہم حکومت سے یہی سوال کرتے ہیں کہ سوات کے ان 17 افراد کا خون کس کے سر ہے؟ کیا ان کے اہلخانہ کو صرف تعزیت اور "معطلی" کے دو لفظ کافی ہوں گے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ اس ریاستی مجرمانہ غفلت کا کوئی ادارہ جاتی احتساب ہو؟ سوات کے سیلاب نے حکومتی نااہلی ننگی کر دی۔

خدارا، اب جاگ جائیے! ورنہ ایک دن یہ قوم آپ سے نہ صرف سوال کرے گی بلکہ حساب بھی لے گی۔ عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھنے کی روش ختم کریں، وہ آپ سے زندگی کی بھیک نہیں، اپنے حقوق مانگ رہے ہیں۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan