Karachi Ka Mayor Kon?
کراچی کا میئر کون؟

کراچی، جو کہ پاکستان کا معاشی حب، آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا شہر اور سیاسی طور پر سب سے حساس میٹروپولیٹن ہے، آج پھر ایک بار پھر عوامی خواہشات کے برعکس، سیاسی جماعتوں کی چالاکیوں اور عوامی شعور کے درمیان پھنسا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال، بالخصوص میئر کراچی کے انتخاب کے حوالے سے، پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری ایک واضح مثال بن چکی ہے۔ اس کالم میں ہم حافظ نعیم الرحمن، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف (PTI) اور عوامی ووٹرز کے کردار کا تجزیہ کریں گے۔
حافظ نعیم الرحمن گزشتہ چند برسوں سے کراچی میں ایک متحرک، پڑھے لکھے، باشعور اور مسائل سے جڑے ہوئے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ ان کی قیادت میں جماعت اسلامی نے نہ صرف گراس روٹ لیول پر اپنی تنظیم کو فعال کیا بلکہ شہر کے مسائل کو مؤثر انداز میں اجاگر بھی کیا۔ واٹر بورڈ سے لے کرکے الیکٹرک اور بلدیاتی خدمات سے لے کر تعلیم و صحت تک، حافظ نعیم کا مؤقف ایک عوامی آواز بن چکا ہے۔ جب حالیہ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے کراچی بھر میں سب سے زیادہ سیٹیں جیتیں تو ایک امید بندھی کہ اب شہر کو ایک ایسا میئر ملے گا جو واقعی عوامی نمائندہ ہوگا۔ مگر پھر ایک بار عوامی خواہشات کا خون ہوا۔ پیپلز پارٹی جسے شہر کے عوام بارہا رد کر چکے، اسے میئر بنانے کے لیے سازشی قوتوں نے گٹھ جوڑ کر لیا۔
پاکستان تحریک انصاف نے کراچی میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر بلدیاتی میدان مارا۔ مگر جب میئر کے انتخاب کا وقت آیا تو PTI کی مرکزی قیادت اور مقامی قیادت میں اختلافات نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ کچھ حلقے کہتے ہیں کہ PTI کی قیادت نے جماعت اسلامی کو بر وقت اور واضح حمایت نہ دے کر دراصل ایک غیر اعلانیہ "خاموش مفاہمت" کا حصہ بننے کی کوشش کی۔ جبکہ دیگر حلقوں کا کہنا ہے کہ PTI کی کمزور تنظیمی حالت اور لالچ نے اس کو کھل کر کھڑے ہونے سے روک دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ حافظ نعیم، جس نے اصول کی سیاست کی، تنہا رہ گیا۔
اگر جماعت اسلامی واقعی کراچی اور پاکستان کی سیاست میں ایک فیصلہ کن قوت بننا چاہتی ہے، تو اب اسے چند بنیادی حکمت عملیوں پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ جماعت اسلامی محض ایک انتخابی جماعت نہیں، بلکہ ایک فکری، انقلابی اور اخلاقی تحریک ہے۔ اس کا اصل ہدف صرف میئر شپ یا چند نشستیں جیتنا نہیں، بلکہ معاشرے کی فکری تشکیل نو اور ایک عادلانہ اسلامی نظام کا قیام ہے۔ اس مقصد کے لیے اب چند اہم اقدامات فوری طور پر کرنے ہوں گے۔
جماعت اسلامی کو چاہیے کہ وہ اپنی دعوتی مہم کو جدید ترین ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ روایتی دعوتی نظام کو بھی مستحکم کرے۔ "جدید دور کی دعوت" صرف تقاریر یا پوسٹرز سے نہیں، بلکہ عوامی مسائل، ویڈیوز، ڈاکومنٹریز، ڈیجیٹل مہمات اور ہائپر لوکل انفلوئنسز سے جڑے بغیر ممکن نہیں۔ ہر یوسی، ہر وارڈ، ہر گلی میں ایسے افراد تیار کیے جائیں جو لوگوں کو یہ شعور دیں کہ "ووٹ صرف پرچی نہیں، یہ امانت ہے۔ اگر تم اپنے ووٹ کی حفاظت نہیں کرو گے، تو ظالم تم پر مسلط ہوتا رہے گا"۔
جس طرح سے پاک فوج نے بھارت کو شرمناک شکست دے کر پاکستانیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا سب سے محبوب ادارہ بن گیا ہے، اب حافظ نعیم الرحمن کو چاہیے کے ان کے شانہ بہ شانہ چلیں اور ملکی سیاست میں اپنا حصہ اور کردار ادا کریں۔ کیونکہ پاک فوج اور وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
جماعت اسلامی کے کارکنان کی تنظیمی اور سیاسی تربیت اب صرف دروسِ قرآن یا فکری نشستوں تک محدود نہیں رہنی چاہیے۔ انہیں عوامی گفتگو، میڈیا ڈسکورس، سوشل نیریٹیوز اور مقامی سیاست کی باریکیوں سے آگاہ کیا جائے۔ ہر کارکن کو ووٹر رجسٹریشن، پولنگ ڈے مینجمنٹ، ووٹ کی حفاظت، قانون و آئین کی سمجھ، مخالفین کے بیانیے کا علمی جائزہ جیسی صلاحیتوں سے لیس کیا جائے۔
حافظ نعیم اور جماعت اسلامی کو اب مستقبل میں اتحاد کے بارے میں پختہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ PTI کے ساتھ اتحاد نے وقتی طور پر کچھ سیاسی فائدہ ضرور دیا، مگر ان کی غیر واضح حکمت عملی اور "نہ ادھر کے نہ ادھر کے" رویے نے جماعت کو نقصان پہنچایا۔ اب اتحاد اس بنیاد پر ہونے چاہیں کہ واضح منشور کی ہم آہنگی، عوامی مفاد کا تحفظ، مشترکہ لائحہ عمل پر دستخط اور شفاف معاہدات ہوں۔
کراچی میں بلدیاتی ادارے ایک طویل عرصے سے یا تو غیر فعال رہے یا پھر سیاسی مداخلت کا شکار۔ جماعت اسلامی کو اب بلدیاتی خود مختاری کی باقاعدہ تحریک چلانی ہوگی۔ یہ مطالبہ ہونا چاہیے کہ مالیاتی خودمختاری، بلدیاتی اختیارات کا تحفظ آئین میں، میئر کا براہ راست انتخاب ہو اور یہ وہ مطالبات ہیں جو عوامی دلچسپی کے بھی ہیں اور عملی تبدیلی کے لیے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
کراچی کی آبادی کا 60 فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جماعت اسلامی کی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ ایک قیمتی اثاثہ ہے، مگر یہ اثاثہ اگر بلدیاتی اور شہری سیاست میں متحرک نہ ہو، تو ضائع ہو جائے گا۔ اسی طرح خواتین کا کردار بھی محض جلسوں یا لٹریچر تک محدود نہیں ہونا چاہیے۔ جماعت کو چاہیے خواتین کارکنان کو تربیت دی جائے۔ ہر یوسی میں خواتین نمائندے متحرک ہوں۔ نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ، پالیسی ڈائلاگ اور سٹی گورننس کی تربیت کے پلیٹ فارم بنائے جائیں۔
جماعت اسلامی کو اب "پرامن مزاحمت" کی منظم حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ یہ وقت ہے کہ ہر الیکشن سے پہلے عوامی جلسے میں "ووٹ کی حفاظت" کا اجتماعی عہد لیا جائے۔ ہر دھاندلی کے خلاف فوری احتجاج، پریس کانفرنس اور قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ ہر شہری کو آئین کے آرٹیکل 19-A، 25 اور 140-A سے آگاہ کیا جائے۔ یاد رکھیے، شعور ہی سب سے بڑی مزاحمت ہے اور یہ شعور منظم، مسلسل اور پرعزم جدوجہد سے ہی بیدار ہوتا ہے۔
حافظ نعیم کا موجودہ موقف، بیانات اور میڈیا میں موجودگی بتاتی ہے کہ وہ پیچھے ہٹنے کے لیے نہیں، آگے بڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں۔ ان کا بیانیہ اب کراچی کی عوام میں ایک حقیقت بن چکا ہے۔ مگر اب صرف "تقریری سچ" کافی نہیں۔ انہیں اندرونی نظم مضبوط کرنا ہوگا، کارکنان کو مقصد کے ساتھ جوڑنا ہوگا اور سیاسی بصیرت کے ساتھ لچک اور استقامت کا امتزاج دکھانا ہوگا۔
یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوا جب جماعت اسلامی کا ووٹر خود اپنے ووٹ کی حفاظت کے لیے متحرک نہ ہوا۔ اگر لاکھوں کی تعداد میں ووٹ لینے کے بعد صرف چند ہزار افراد بھی بلدیہ آفس کے باہر جمع ہو کر احتجاج کرتے، تو شاید اتنی آسانی سے پیپلز پارٹی میئر شپ پر قبضہ نہ کر پاتی۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ووٹر کا شعور صرف ووٹ ڈالنے تک محدود ہے؟ کیا ہمیں یہ سکھانا ہوگا کہ ووٹ ڈالنے کے بعد اس کی حفاظت کرنا بھی ہمارا فرض ہے؟
کسی بھی قوم کی ترقی کا راز اس کے افراد کے شعور، تنظیم اور نظریاتی وابستگی میں چھپا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کو اب صرف انتخابی سیاست کے بجائے نظریاتی جدوجہد کو دوگنا کرنے کی ضرورت ہے۔ حافظ نعیم کا جو وژن ہے کہ "ڈبل دی ڈوز" "Double The Dose" وہ صرف نعرہ نہیں، ایک حکمت عملی ہے۔ یہی وقت ہے کہ نوجوانوں کو، محنت کشوں کو، طلبہ کو اور متوسط طبقے کو نہ صرف نظام کی خرابی سے آگاہ کریں بلکہ ان کو متبادل نظریہ، متبادل قیادت اور متبادل جدوجہد کی راہ دکھائیں۔ ایک تربیت یافتہ، بیدار اور شعوری عوامی قوت ہی وہ دیوار بن سکتی ہے جو ہر سازشی حملے کو روک سکے۔
کراچی کا معرکہ محض میئر کی کرسی کا معرکہ نہیں، یہ درحقیقت ایک نیا بیانیہ، ایک نیا طرز سیاست اور ایک اصولی مزاحمت کی علامت بن چکا ہے۔ جماعت اسلامی اگر اس لمحے کو ضائع کر دے، تو شاید پھر موقع نہ ملے۔ مگر اگر وہ اس لمحے کو تاریخ کی کروٹ میں بدل دے، تو نہ صرف کراچی بلکہ پورے پاکستان کی سیاست میں ایک صاف، اصولی، دیانتدار اور فکری قیادت کا نیا سورج طلوع ہو سکتا ہے۔ فیض احمد فیض صاحب کا ایک شعر یاد آگیا کہ
ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
اک طرزِ تغافل ہے سو وہ اُن کو مبارک
اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
اگر جماعت اسلامی اور حافظ نعیم واقعی کراچی کے مستقبل کو بدلنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو انہیں اپنی دعوتی اور سیاسی سرگرمیوں کو دوگنا کرنا ہوگا۔ ہر گلی، ہر محلے، ہر تعلیمی ادارے اور ہر فیکٹری تک یہ پیغام پہنچانا ہوگا کہ "یہ نظام رب کے دین کے خلاف ہے" اور اس کے خلاف مزاحمت، ایمان کا تقاضا ہے۔ یقین مانیے، جس دن کراچی کے نوجوان، خواتین، بزرگ اور طلبہ یہ شعور لے کر اٹھ کھڑے ہوں گے، اس دن کوئی جاگیر دار میئر کو ہم پر مسلط کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا۔ تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو۔
نشیمن پر نشیمن اس طرح تیار کرتا جا
کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہو جائے

