Jab Takht Ka Khel Khela Jaye
جب تخت کا کھیل کھیلا جائے

"جب تم تخت کا کھیل کھیلتے ہو، یا جیتتے ہو یا مرتے ہو۔ بیچ کا کوئی راستہ نہیں ہوتا"۔
یہ مشہور جملہ محض کسی ڈرامے کی سطر نہیں، بلکہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ اور مسلم دنیا کے حالات کی ایک عکاس تصویر ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی، جارحیت اور دھمکیوں کی نئی لہر میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ دونوں فریق اب ایسے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جہاں یا تو مکمل کامیابی ممکن ہے یا مکمل تباہی۔ کوئی درمیانی راہ باقی نہیں بچی۔ سوال یہ ہے کہ اس ماحول میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ کیا ہم صرف تماشائی بنے رہیں گے؟ یا وقت آنے پر کوئی تاریخی کردار ادا کریں گے؟ کیا ہماری حکومت کی خاموشی حکمت ہے یا بے حسی؟
مشرقِ وسطیٰ کی دہکتی آگ!
ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع کوئی نیا واقعہ نہیں۔ مگر حالیہ مہینوں میں جو کیفیت بنی ہے وہ اس کشیدگی کو کسی ممکنہ عالمی جنگ کے دہانے پر لے آئی ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم نتن یاہو کی دھمکیاں، ایرانی تنصیبات پر حملے اور ایرانی جنرلوں کو نشانہ بنانا اس بات کا اعلان ہے کہ اب اسرائیل صرف دباؤ نہیں ڈال رہا بلکہ وہ ایک مکمل جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
جوابی طور پر ایران نے بھی تحمل کا لبادہ اتار کر اعلانِ مزاحمت کر دیا ہے۔ "اگر اب نہیں، تو کبھی نہیں! " یہ نعرہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ کے ہر حلقے میں گونج رہا ہے۔ ایران سمجھ چکا ہے کہ اگر اس وقت اس نے اسرائیل اور اس کے عالمی حمایتیوں کو فیصلہ کن جواب نہ دیا تو نہ صرف اس کی خودمختاری بلکہ اس کی نظریاتی اساس بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ ایران کے لیے یہ ایک تہذیبی، فکری اور جغرافیائی جنگ بن چکی ہے۔
ایران کی مجبوری یا موقع؟
ایران آج جس مقام پر کھڑا ہے، وہاں سے پسپائی اسے اندرونی سیاسی بحران اور عالمی سطح پر کمزوری کی طرف لے جائے گی۔ مغرب کی اقتصادی پابندیوں، عرب ریاستوں کی مخاصمت اور اسرائیلی برتری نے ایران کو ایک ایسے کونے میں دھکیل دیا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں، سوائے اس کے کہ وہ اپنی حیثیت کو عملی میدان میں منوائے۔
ایران کے لیے اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونا صرف ایک سیاسی یا فوجی عمل نہیں، یہ ایک عقیدے، نظریے اور تہذیب کی جنگ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اگر کوئی ملک اسرائیل کو کھل کر للکارتا ہے تو وہ ایران ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران کی جارحانہ پالیسی اس کے لیے بقاء کی جنگ بن چکی ہے۔
پاکستان: خاموشی، کمزوری یا بزدلی؟
ایران اور اسرائیل کے مابین یہ ممکنہ جنگ، صرف ایک دو ملکوں کا معاملہ نہیں، یہ مسلم اُمّہ کے مستقبل کا تعین کرے گی۔ اس پس منظر میں پاکستان کا کردار نہایت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ مگر افسوس، وطنِ عزیز میں حکمران طبقہ یا تو اپنی نااہلی میں گم ہے یا مصلحت کی چادر اوڑھے بیٹھا ہے۔
کیا ہمارے حکمران نہیں جانتے کہ ایران کی شکست کا مطلب پورے خطے میں اسرائیلی بالادستی کا قیام ہوگا؟ کیا ہمیں یہ معلوم نہیں کہ ایران کے بعد اگلا ہدف پاکستان بن سکتا ہے؟ مگر پھر بھی ہماری وزارت خارجہ، ہمارے وزرائے اعظم اور صدور خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
مسلم اُمّہ کی قیادت کا خواب؟
قیامِ پاکستان کا مقصد صرف ایک جغرافیائی ریاست کا قیام نہیں تھا بلکہ یہ ایک نظریے، ایک امت کے تصور کی بنیاد پر وجود میں آیا۔ قائداعظم نے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان مسلمانوں کی عظیم اسلامی ریاست ہوگا جو نہ صرف اپنے شہریوں کی فلاح کا ضامن ہوگا بلکہ عالم اسلام کی قیادت کرے گا۔
مگر آج پاکستان کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ جب ایران پر اسرائیلی حملے ہوتے ہیں تو وہ "تشویش کا اظہار" کرکے اپنے ضمیر کو سلا دیتے ہیں۔ نہ کوئی جرأت مند بیان، نہ کوئی عملی اقدام، نہ کوئی سفارتی پیش رفت۔ نہ اقوامِ متحدہ میں آواز، نہ او آئی سی میں تحریک۔ کیا یہ قیادت ہے؟ یا غلامی کا دوسرا نام؟
داخلی بحران، خارجی بے حسی!
پاکستان کا اندرونی منظرنامہ بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ معیشت تباہ، عوام مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں، حکومتی ادارے نااہلی کی بدترین مثال بنے ہوئے ہیں۔ ایسے میں عالمی معاملات پر کوئی موقف دینا شاید ان کے لیے بوجھ محسوس ہوتا ہو۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہر وقت اپنی داخلی کمزوری کا رونا روتے رہے تو پھر پاکستان کبھی عالمی سطح پر کیسے ابھرے گا؟ اگر آج ہم نے ایران جیسے برادر ملک کے ساتھ کھڑے ہونے کا حوصلہ نہ دکھایا، اگر ہم نے امت مسلمہ کی اجتماعی طاقت بننے کے لیے اپنا کردار ادا نہ کیا تو شاید وہ وقت دور نہیں جب پاکستان بھی تنہا کھڑا ہوگا اور کوئی اس کے لیے آواز نہیں اٹھائے گا۔
اسرائیلی ایجنڈا: "Divide and Destroy"
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل کا خواب ایک گریٹر اسرائیل کا ہے، جس میں عراق، شام، لبنان، اردن، مصر اور یہاں تک کہ حجاز کے بعض حصے شامل ہوں۔ ایران اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور اس کے بعد پاکستان۔ اسرائیل اور اس کے حلیف چاہتے ہیں کہ مسلم دنیا کو اندرونی فرقہ واریت، معاشی بحران اور سیاسی افراتفری کے ذریعے ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔
پاکستان کے جو حلقے ایران سے تعلقات کمزور کرنے کی بات کرتے ہیں، وہ یا تو نادان ہیں یا ایجنڈا بردار۔ ایران کو کمزور کرنے کا مطلب اسرائیل کو مضبوط کرنا ہے اور اسرائیل کی مضبوطی صرف فلسطین کے لیے نہیں، پاکستان کے لیے بھی ایک خطرہ ہے۔
اب وقت ہے، فیصلہ کرنے کا!
اب وقت ہے کہ پاکستان اپنے تاریخی، نظریاتی اور دینی کردار کو پہچانے۔ وقت کی آواز ہے کہ:
پاکستان واضح طور پر ایران کے حق میں عالمی فورمز پر آواز بلند کرے۔ مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کی عملی کوشش کرے۔ ایران کے خلاف کسی ممکنہ اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرے اور اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرے۔ اندرونی سیاسی استحکام اور قومی خودداری کو مضبوط کرے تاکہ عالمی سطح پر باوقار کردار ادا کر سکے۔
نتیجہ: یا جیتو، یا مرو!
یہ وہ وقت ہے جہاں بیچ کا راستہ نہیں۔ ایران نے اپنی تاریخ کے اہم ترین لمحے کا سامنا کیا ہے اور پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی خاموشی یا جرأت کا بوجھ مستقبل میں اٹھانا پڑے گا۔ اگر ہم تخت کے اس کھیل میں حصہ نہیں لیں گے، تو تخت تو دور، زمین بھی شاید ہمارے پاس نہ بچے۔ اللہ اس امت کو وہ شعور عطا کرے جو اس وقت کی ضرورت ہے اور ہمیں اُن حکمرانوں سے نجات دے جو غلامی میں نجات ڈھونڈتے ہیں۔

