Dollar Bohran, Zimmedar Kon?
ڈالر بحران، ذمہ دار کون؟
پاکستان کو پچھلے کچھ عرصے سے امریکی ڈالر کی بلند شرح کا سامنا ہے۔ اس مسئلے کے نتیجے میں ملک پر خاص طور پر عام لوگوں پر نمایاں معاشی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ پاکستانی شہری اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر گھر میں رکھ رہے ہیں جس کے باعث مارکیٹ میں ڈالر کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔
اس صورتحال کی کئی وجوہات ہیں جن میں ملک کی درآمدی بھاری معیشت، سیاسی عدم استحکام اور ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا کم ہونا شامل ہیں۔ زیادہ درآمدی بلوں کی وجہ سے، پاکستان کو درآمدات کی ادائیگی کے لیے بڑی مقدار میں غیر ملکی کرنسی، بنیادی طور پر امریکی ڈالر کی ضرورت ہے۔ تاہم، ملک کی کم برآمدات کے نتیجے میں تجارتی خسارہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے غیر ملکی کرنسی کی قلت ہے۔
موجودہ اقتصادی بحران کئی عوامل کی وجہ سے بڑھ گیا ہے، جن میں افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی اور ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت شامل ہے۔ بیوروکریسی کے اندر کرپشن نے بھی اس بحران میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔
افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی ایک اہم مسئلہ ہے جو کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے۔ پاکستان میں بہت سے لوگ غیر قانونی طور پر ڈالر افغانستان منتقل کر رہے ہیں، جہاں کرنسی زیادہ قیمتی ہے۔ اس طرز عمل سے پاکستان میں ڈالر کی قلت پیدا ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں شرح مبادلہ میں اضافہ ہوا ہے۔
مزید یہ کہ ایران کے ساتھ غیر قانونی پھول کی تجارت بھی پاکستان میں امریکی ڈالر کی اونچی شرح کا ایک اہم عنصر ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کی وجہ سے ایران کئی ممالک کے ساتھ تجارت نہیں کر پا رہا ہے جس کی وجہ سے ایران میں ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی تاجر اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایرانی پڑول اور دیگر اشیا ڈالر سے خریدتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کی قلت اور شرح مبادلہ میں اضافہ بھی ایک وجہ ہے۔
بیوروکریسی کے اندر کرپشن نے بھی موجودہ معاشی بحران میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بدعنوان اہلکار غبن اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں اور یہ کرپشن بھی پاکستان میں ڈالر کی قلت کی وجوہات میں سے ایک ہے۔ حکومت ہر دور میں ان بدعنوان اہلکاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنے میں ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے عوام کا ہر حکومت اور معیشت پر اعتماد کا فقدان ہے۔
موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت کو بیوروکریسی کے اندر کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اسے افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی اور ایران کے ساتھ تجارت کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ حکومت برآمدات کی حوصلہ افزائی کرے اور برآمدات بڑھانے کے لیے کاروباری اداروں کو مراعات فراہم کرے۔ برآمدات میں اضافے سے ملک زیادہ غیر ملکی کرنسی کمائے گا جس سے شرح مبادلہ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
اس کے علاوہ امریکی ڈالر کی بلند شرح میں ملک کے سیاسی عدم استحکام نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں مسلسل اقتدار کی کشمکش میں مصروف ہیں اور معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے موثر اقتصادی پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کر سکیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے جس سے امریکی ڈالر خریدنا مزید مہنگا ہوگیا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں ڈالر کی خریداری پر پابندیاں عائد کرنا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے نئی پالیسیاں متعارف کرانا شامل ہیں۔ تاہم یہ اقدامات مسئلے کے حل کے لیے کافی نہیں ہیں۔ اس کے بجائے، انہوں نے لوگوں کو کھلی مارکیٹ سے ڈالر خریدنے اور گھر پر رکھنے کی ترغیب دی ہے، جس سے مارکیٹ میں مزید عدم استحکام پیدا ہو رہا ہے۔
عوام کا گھروں میں ڈالر جمع کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ نہیں ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں پاکستانی روپے کی قدر مزید گر رہی ہے۔ اس ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں مارکیٹ میں ڈالر کی قلت بھی ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال بالآخر عام لوگوں کو نقصان پہنچاتی ہے، جنہیں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے روزمرہ کی اشیا اور خدمات کے لیے زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
آخر میں، پاکستان میں امریکی ڈالر کی اونچی شرح ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو ایسی موثر پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جو غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں اور معیشت کو مستحکم کریں۔ افغانستان میں ڈالر کی غیر قانونی منتقلی اور ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت اس بحران میں اہم عوامل ہیں۔
بیوروکریسی کے اندر کرپشن نے بھی اس بحران میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کرنے، ڈالر کی غیر قانونی منتقلی کو روکنے اور برآمدات کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کو ڈالر کی ذخیرہ اندوزی سے گریز کرنے اور ملک کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی ملک ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔