Yom e Walid
یومِ والد
آج 21 جون 2020 ہے۔ کل 22 جون ہے، سال کا طویل ترین دن اور شاید گرم ترین دن بھی ہو۔ 21 جون کو اس دنیا کے باشندوں نے یوم والد قرار دیا ہے۔ یعنی ایسا دن جس دن ہم مل کے اپنے اپنے والد کا شکریہ ادا کریں۔ ان کی اپنی اولاد کے لئے کی گئی خدمات کے اعتراف کا دن۔ 21 جون کو شاید اس لئے یومِ والد رکھا کہ جیسے یہ دن طویل ہے، ویسے ہی والد کے حصے میں طویل محنت رکھی گئی ہے۔ تمام مصائب و آلام جس سے گزر کر ایک والد نے اپنی اولاد کو اس قابل کیا کہ وہ زمانے میں سر اٹھا کے چل سکیں۔
ماں اور باپ دونوں رشتے معتبر، لازم اور عطائے خداوندی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دیکھا گیا ہے کہ بچوں کی ہمدردیاں ماں کی طرف ہوتی ہیں۔ جبکہ باپ وہ ہستی ہے جس کو اس کا جائز حق اور مقام نہیں ملا۔ نعت خوان بھی اکثر ماں کی شان ہی محافلِ نعت میں پڑھتے ہیں۔ علماء بھی ماں کی شان بارے میں تقاریر اور وعظ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے حسرت ہے کہ جیسے ماں کی شان بیان ہوتی ہے ویسے ہی ہمارے طبقات کے مظہر باپ کی شان بھی اسی شدت سے بیان فرمائیں۔
ہم نے کسی کالم میں تحریر کیا تھا، وہیں سے جملہ مستعار لیتے ہیں کہ اگر ماں ٹھنڈی چھاؤں ہے تو باپ وہ گھنا درخت ہے جس کے سبب وہ ٹھنڈی چھاؤں میسر ہوتی ہے۔ باپ کا مرتبہ کسی طور ماں سے کم ہرگز ہرگز نہیں۔ ہم نے اکثر دیکھا کہ باپ اپنا گھر چھوڑتا ہے اور پردیس جا بستا ہے اپنی بیوی اور بچوں کے لئے۔ اپنے خاندان سے کٹ جاتا ہے۔ بیمار ہو تو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ اب طبیعت کیسی ہے؟
کھانا پکانا، کپڑے دھونا، ڈیوٹی کرنا، تمام کام اسے خود کرنا پڑتے ہیں۔ یہ سب صرف اس لئے کہ اس کے بچے اچھی زندگی گزاریں۔ زمانے کی سختیاں خود جھیلتا ہے تاکہ اس کی اولاد کی زندگیوں میں آسیانیاں میسر ہوں۔ پہلے وہ اپنے ماں باپ کے لئے پردیس کاٹتا ہے۔ پھر عمر 40 سال کے لگ بھگ ہو تو واپسی کا ارادہ کرتا ہے۔ اب اپنی اولاد 12 سال کی ہونے والی ہوتی ہے۔ پھر بندہ کہتا ہے کہ اب اپنی اولاد کے لئے کچھ کرنا چاہئے۔ پانچ دس سال مزید وقف کرنے کی ٹھانتا ہے۔
اگر خوش قسمت ہو تو زندہ واپس آجاتا ہے ورنہ تابوت میں قید ہوکے۔ سالوں واپسی نہیں ہوتی۔ ایک سے دو ماہ چھٹی مل پاتی ہے۔ جب پردیس جاتا ہے تو جوانی ہوتی ہے، کلین شیو ہوتا ہے۔ واپسی پہ داڑھی میں چاندی کے تار سجائے واپس آتا ہے۔ ایسے میں اولاد کو پہچان کرنے میں دقت ہوتی ہے۔ یہ سب کس لئے؟ کہ اولاد سکھی رہے۔۔
ابھی میٹرک کا رزلٹ نہیں آیا تھا کہ ہمارے والد محترم نے پردیس کی راہ لی۔ یہ اللہ کریم کا ان پہ کرم رہا کہ اپنی بیوی اور بچوں کو اپنے ساتھ رکھا۔ آج بھی ہمارے والد پردیس ہی کو مسکن بنائے بیٹھے ہیں، کیوں؟ یہ ایک طویل اور کربناک کہانی ہے۔ ہمارے والد نے محنت ترک نہیں کی۔ کل بھی نہ کی جب وہ 17 سال کے نوجوان تھے اور آج بھی کر رہے ہیں جب کہ وہ 60 سال سے تجاوز کر چکے ہیں۔
اپنے بچپنے میں ہمیں اپنے والد سے شدید اختلافات تھے سبب والد محترم کی طبیعت کی سختی تھی۔ ویسے بھی ہمیں وہ بندہ اچھا نہیں لگتا کہ جو سمجھائے اور سمجھانے کے لئے بچوں کی ٹھکائی کرے۔ لیکن یہ اختلاف بے ادبی کی حد تک کبھی نہیں گئے۔ ادب کا دامن کل بھی تھاما اور آج بھی تھامے ہوئے ہیں۔ آج بلکہ اس ادب میں عقیدت کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ سمجھ صرف اور صرف عطائے خداوندی ہے۔
آج کے والد محترم کئی محاظ پہ مورچہ سنبھالے لڑ رہے ہیں۔ بڑھاپا، بیماری، رشتہ داروں کی بے قدری، ناتوانی اور دیگرے۔ لیکن صد شکر کہ والد محترم زندہ دل اور حالات سے ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے واقع ہوئے ہیں۔ ان کی مثال میدان جنگ کے آخری فوجی کی سی ہے جو تب تک لڑتا ہے جب تک یا تو فتح مل جائے یا شہادت۔ زمانے کی گردش ایام نے ان کو کمزور ضرور کیا لیکن اب بھی مقابلہ جاری ہے۔ بقول شاعر "امام بخش ناسخ"
زندگی زندہ دلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
والد محترم کی اس طویل جدوجہد کا صلہ اللہ کریم نے انہیں اسی دنیا میں عطاء کیا ہے اور آخرت میں بھی اس کا صلہ ضرور بہ ضرور عطاء کریں گے۔ یوں تو ہم اپنے والد محترم کے سارا سال، ساری زندگی کے شکر گزار ہیں، لیکن چونکہ رسم دنیا ہے، موقع بھی ہے، دستور بھی ہے۔ ہم اپنے والد محترم کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور انکی طویل اور صحت والی زندگی کی اپنے اللہ کریم سے دعا طلب کرتے ہیں۔
شکریہ ابو جی۔