Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Tanzeel Ashfaq
  4. Hamesha Dair Kar Deta Hoon Main

Hamesha Dair Kar Deta Hoon Main

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں

دنیا کے اس اژدھام میں آپ کے تعلق کی نوعیت سب سے مختلف ہوتی ہے۔ کسی سے سرسری، کسی سے سلام دعا کی حد تک، کسی سے دوستی، کسی سے گہری دوستی، کوئی آپ کا رشتہ دار۔ یعنی ہر تعلق کی نوعیت مختلف قرار پاتی ہے۔

کچھ تعلق آپ کو ورثے میں ملتے ہیں جنہیں آپ کو ساری زندگی نبہانا پڑتا ہے۔ یہ تعلق آپ کو ننہیال یا ددھیال سے ملتے ہیں، جبکہ دوسری طرح کے تعلق آپ کو اپنے میل ملاپ اور روزمرہ کے سماجی تعلق کی بنا پر ملتے ہیں۔ لیکن یہ تمام تعلق آپ کے میل ملاپ پہ منحصر ہیں، جتنا میل ملاپ ذیادہ اتنا ہی تعلق کی مضبوطی۔

لیکن اب دور بدل چکا ہے، دنیا گلوبل ولج بن چکی ہے۔ دو دہائیوں پہلے کس نے سوچا ہوگا یہ شوشل میڈیا کے طفیل بھی آپ دوست بنا سکیں گے، نہ صرف دوست بلکہ ایسے دوست جن پہ آپ آنکھ بند کر کے اعتبار کر سکیں۔

اسی سوشل میڈیا کی بدولت ہمارے دوست جو خود سوشل میڈیا کی دین ہیں نے ایک شخصیت سے تعارف کروایا کہ یہ لکھاری ہیں اور اچھا لکھتے ہیں، آپ سخن کدہ پہ انکے مضامین شائع کیجئے۔ اس سے قبل ان سے تعلق کسی طور نہیں تھا۔

یہ جون 2018 کی بات ہے جب اس شخصیت نے سخن کدہ کے لئے لکھنا شروع کیا اور پھر ہوتے ہوتے یہ تعلق ایک مضبوط دوستی میں بدلا۔ سرگودھا سے خصوصی طور یہ ہمیں ملنے لاہور آئے۔ پھر یہ دوستی کب بھائی کے رشتے میں بدلی کچھ پتہ نہیں۔

اس شخصیت کا نام علی اصغر ہے۔ علی کا اصل میدانِ قلم مذہب سے لیکن سماجی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے سماجیات پہ بھی مضامین تحریر کرتے ہیں۔

انسانی شخصیت کا ارتقاء وقت کے ساتھ ساتھ ممکن ہوتا ہے، علم، آگہی، مطالعہ اور شعور وہ ستون ہیں جو شخصیت کے ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے علی بھائی حاملِ تصنیف ہوئے جو ان کے اور ہمارے لئے "زادِ نجات" قرار پائی۔ اس کتاب کی پزیرائی کا عالم یہ کہ یہ کتاب نجفِ اشرف کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ پاکستان کے تقریبا تمام جید علماء نے زادِ نجات کی تعریف اور توصیف کی۔

زادِ نجات کے بعد اگلی منزل "متولی کعبہ" ٹھیری، ایک ایسا موضوع جس پہ بہت کم لکھا گیا۔ یقینا یہ بھی زادِ نجات ہی کی ایک کڑی اور منزل ہے۔

اس منزل کے حصول پہ علی اصغر کو تمام پاکستان سے تہنیتی پیغامات موصول ہوئے، یہ سب دیکھ کر دل سے خوشی ہوئی کہ ہمارا بھائی شخصیت کے ارتقاء کی اس منزل پہ پہنچ گیا کہ دنیا اب ان سے تعلق پہ فخر محسوس کرتی ہے۔

ان تہنیتی پیغامات میں ہمارا تہنیتی پیغام شامل نہ تھا، جس کا گِلہ کل شب بھائی علی اصغر نے کیا۔ اس پر صرف معزرت کے کچھ اور نہ کہہ پایا، لیکن اس تحریر کے ذریعے علی اصغر بھائی کو بتلانا یہ مقصود ہے کہ اپنے اظہار میں میں شدید تساہل کا شکار ہو جاتا ہوں، خدارا اسے دل پہ نہ لیا کریں۔ بقول منیر نیازی

ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں

ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو

مولاؑ کریم آپ کو مزید ترقیاں عطاء فرمائے۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin