Alvida
الوداع
اس زندگی کے سفر میں بہت سے مسافر آپ کے ساتھ ہم سفر ہوتے ہیں۔ ہر مسافر اپنی منزل کے آتے ہی آپ کو الوداع کہہ کر رخصت ہوجاتا ہے۔ کچھ مسافر الوداع کہے بغیر الگ ہو جاتے ہیں۔ ہر مسافر کی نوعیت اور منزل الگ ہوتی ہے۔ اس سفر کے تمام مسافر ہمیں یاد رہیں یہ تو ممکن نہیں لیکن کچھ مسافر ایسے ہوتے ہیں جنکی جدائی ہرگز برداشت نہیں ہوتی اور دل کرتا ہے کہ اپنی منزل کو ترک کرکے اُس مسافر کی منزل کی طرف بڑھ جائے۔ یہ میلان ناامیدی کا نتیجہ ہرگز نہیں، بلکہ وہ قلبی لگاؤ ہے جو اس سفر کے دوران وجود پزیر ہوا۔
ہم میں سے ہر کوئی خواب دیکھتا ہے۔ ہر خواب کا دورانیہ اور نوعیت الگ۔ اکثر خواب ہمیں بھول جاتے ہیں لیکن چند خواب ہمیں ہرگز نہیں بھولتے۔ ایسے خواب یا تو ڈراونے پن کی وجہ سے یا پھر حسین مستقبل کی منظر کشی کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔ ہر خواب کا دورانیہ مختلف، لیکن خواب ختم ہونے پہ نتیجہ ایک سا رہتا ہے۔ ہمیں لگتا یہ کہ خواب دیکھتے صرف چند ساعتیں ہی ہوئیں کہ بیدار ہو گئے۔ ذرا سوچئے کہ کیا ہو کہ ہم اپنی زندگی گزار چکیں اور ہم پہ یہ عیاں ہوں کہ ہم تو خواب دیکھ رہے تھے۔۔
یقینا یہ دنیا ایک سراب ہے، لیکن اس سراب میں کچھ نخلستان بھی موجود ہیں۔ کہ جن کے سہارے ہم صحرائے زندگی عبور کرتے ہیں۔ اس سعی میں ہم بھوک، پیاس، عُسرت، ظلم سب کچھ ہی برداشت کرتے ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ منزل ہمیں درکار ہوتی ہے۔ جتنی صعوبتوں کے بعد منزل ملے، اتنی ہی منزل کی قدر ھوا کرتی ہے۔
ہماری زندگی کے ایک ایسے ہی ہمسفر ہمارے ماموں جی تھے۔ جی ہاں، "تھے"۔ اپنی منزل آتے ہی وہ ہم سے جدا ہوئے۔ ایسے جدا ہوئے کہ ہم سے اپنا سفر طے کرکے، منزل پہ پہنچنے کی چاہت کی ختم کر گئے۔
اپنے اس سفر کے آغاز پہ نظر دوڑائیں تو ہمیں یاد آتا ہے کہ یہ سفر ماموں جی کے ساتھ بڑی وارفتگی کے ساتھ شروع ہوا۔ ہوتا بھی کیوں نہ، کہ ایک ہی بہن کے بھائی تھے۔ اپنوں کے حق میں بلا کے جذباتی۔ اپنوں کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار۔ ہمیشہ سچ بولا، چاہے نقصان اپنا ہی کیوں نہ ہوا۔ اپنے بیگانے اس لئے کتراتے اور ناراض رہتے کہ غلط بات پہ لگی لپٹی بغیر سنا دیتے۔ ان کا یہی وصف ان کا دشمن بنا رہا۔
ماموں جی سے کچھ ایسے فیصلے مجبوری میں صادر ہوئے جن کا قلق انہیں تا دمِ مرگ رہا۔ کچھ ایسی غلط فہمیاں ان میں منتقل کی گئیں کہ جن کے اظہار میں بہت دیر ہوگئی۔ لیکن دیر آید، درست آید۔ ہم سے بہت ساری باتیں انہوں نے وقتِ آخر کیں۔ کہنے لگے کہ میرے سامنے میرا گھر اجڑ گیا اور میں کچھ کر بھی نہیں سکا۔۔ انکو اپنے منجھلے بیٹے کا شدت سے انتظار رہا، بار ہا انہیں کہتے رہے کہ ایک مرتبہ آجاو، لیکن شاید اس سفر میں ان کی مزید شمولیت ممکن نہ تھی۔ وہ تب آئے جب مسافر اپنی منزل کو پہنچ چکا تھا۔۔
وقتِ آخر میں نے محسوس کیا کہ جیسے جیسے انکی منزل قریب آتی گئی، انکی سفر کی تھکاوٹ بڑھتی ہی چلی گئی۔ یہ تھکاوٹ صرف سفر کی نہیں تھی، اس سفر کے دوران دیگر مسافروں کے اَن دیکھی دھکم پیل کی تھی۔ ظاہری دھکم پیل کا انسان مداوا کرلیتا ہے، کہ نظر آرہی ہے۔ لیکن ان دیکھی دھکم پیل کا پتہ تب چلتا ہے جب انسان نڈھال ہوچکا ہوتا ہے۔ اس سب کے مرتکب انجان مسافر نہ تھے، بلکہ اپنے وہ مسافر تھے کہ جنہیں وہ گلہ بھی نہ کرسکے۔ نہ ہی ان مسافروں کو حیا آیا کہ ہم کیا ظلم کر رہے ہیں۔
سفر تو خیر کٹ ہی جاتا ہے چاہے ساتھ کے مسافر مونس و غم گسار ہوں یا اپنی ذات میں"یزید" ہوں۔ ان کا سفر بھی کٹ ہی گیا اور ہمارا سفر بھی کٹ ہی جائے گا، مگر ہم نے ان بد صفت مسافروں کو کبھی معاف نہیں کیا، اور میرا رب بھی شاید انہیں معاف نہ کرے۔ ظلم کا بدلہ تو خیر چکانا ہی پڑتا ہے۔ وہ طاقت رکھتے تھے کہ سیر کو سوا سیر بن کے ملتے، مگر شاید انہوں نے مظلوم بن کے جانا زیادہ پسند کیا۔
ان ہاتھوں، ان آنکھوں نے انہیں خود الوداع کیا۔ اس دھرتی ماں کے حوالے کرتے ہوئے کسی دم نہیں لگا مسافر کے چہرے پہ سفر کے اختتام اور دیگر مسافروں کے احسان کی صعوبتیں درج ہوں۔ اُن کو انکے والد محترم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ دیکھئے کیا صلہ ملا انکو اُنکی فرمانبرداری کا۔ ساری زندگی اپنے والد سے اونچی آواز میں کلام تک نہیں کیا۔ ویسے بھی اپنے والد کے ہوتے ہوئے بندہ بے غم ہو جاتا ہے۔ اب شاید ماموں بھی بے غم ہو کے سونا چاہتے تھے، سو ان کو ان کے والد کا قرب نصیب ہوا۔
الوداع ماموں جی۔۔ الوداع!