Yoon Di Hamein Azadi
یوں دی ہمیں آزادی
صاحبو بچپن سے ایک گیت سنتے آرہے ہیں، یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان۔ صاحبان 1947 میں انگریز سامراج سے اور متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانان ہندوستان نے ایک نیا وطن حاصل کیا، جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے مذہبی عقائد اور تہذیب و تمدن کے ساتھ زندگی گذارسکتے تھے، لاکھوں جانوں کا نذرانہ، لاکھوں ماوں اور بہنوں کی کی تار تار عزتوں کے بدلے یہ وطن حاصل ہوا، جنہوں نے قربانیاں دی انکی نسلیں آج بھی شاید قربانیاں ہی دی رہی ہیں۔
ایک نوزائیدہ مملکت کے لیے اپنی حفاظت بڑی ضروری ہوتی ہے اور اسکے لیے فوج کی ضرورت پڑتی ہے اس معاملے میں انگریز سرکار نے نئی مملکت کی بڑی مدد کی، آج بھی ہمارے جوان اعلی تربیت کے لیے سابقہ سرکار کے وطن جاتے ہیں۔ تاریخ کے گمنام سپایوں میں کچھ پولش یہودیوں کے نام بھی شامل ہیں جو نئی اسلامی مملکت کے کام آئے۔
آج 74 سال مملکت خداداد کو آزاد ہوے ہوگئے ہیں۔ اس ملک نے سب کو بہت کچھ دیا، عزت، دولت، شہرت سب کچھ دیا، قربانیاں دینے والوں نے بھی بہت کچھ پایا۔ آزادی کے پچیس برس بعد ملک کا ایک ٹکڑا مملکت خداداد سے الگ ہوگیا، جغرافیائی حدود کے اعتبار سے مشرقی حصے کی سرحد مغربی حصے سے ملتی نہ تھی، پھر سیاسی عوامل، علیحدگی تو ہونی تھی۔ بہرحال پچاس سالوں میں مشرقی حصہ مغربی حصہ کے مقابلے میں خاصاخوشحال ہوگیا ہے۔
آج کل مملکت خداداد کے معمولات گذشہ تین برسوں سے تبدیلی کے رستے پر رواں دواں ہیں۔ عوام کو بتایا بلکہ سمجھایا جارہا ہے کہ سارے معاشی اشارے مثبت ہیں، ملک اوپر کی طرف جارہا ہے، اور عوام بھی اوپر ہی جا رہے ہیں، ڈالر بڑھنے سے تارکین وطن اور انکے ملک میں موجود لواحقین کو فائدہ ہورہا ہے، بہرحال عوام کے لیے بہتر یہی ہے کے ایکسپورٹ بڑھانے پر توجہ دیں اور کروڑ نوکریاں اندرون ملک نہیں بلکہ بیرون ملک تلاش کریں، زرمبادلہ کے ذخائر بڑھایں، مہنگائی بڑھتی ہے تو کیا ہوا کچھ لوگوں کا فائدہ بھی تو ہوتا ہے ملک بنانے کے لیے قربانیاں دیں تو ملک سنبھالنے کے لیے بھی تو قربانیاں دیں۔
74 سالوں مملکت خداداد کی عوام نے کبھی جمہوریت کبھی آمریت کا کھیل دیکھا، آج تک عوام سمجھ نہ سکی کہ اسکے لیے کیا ضروری ہے، مملکت کے اکثر اعلی عہدیدار دہری شہرت رکھتے ہیں، جزبہ حب الوطنی کے تحت ملک میں کام کرتے ہیں آخر میں ڈالر سمیٹ کر آنکھوں میں آنسو لیے پرانے آقاوں کے دیس چلے جاتے ہیں، کبھی کبھی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ ایک غیر ملکی پاسپورٹ ہم بھی بنالیتے۔
بہرحال صاحب نظام مملکت ایسے ہی چل رہا چل رہا ہے، اگر مہنگائی کا مقابلہ کرنا ہے تو وہ کام کرنا سیکھیں جس سے ڈالر کمانے کا موقع ملے، کیونکہ سستے اور مہنگے کا کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا، کھلاڑی وہی ہیں اور وہ ہی رہیں گے بس ٹیمیں تبدیل ہوتی رہیں گی۔ اگر خوشحالی چاہتے ہیں تو ایکسپورٹ کا دھندا کریں یا خود ایکسپورٹ ہو جائیں۔
مزید آگے بڑھیں تو ملک کا ہر ادارہ خاصکر سرکاری یا نیم سرکاری بھلے نقصان میں چل رہا ہوں، مگر آجکل ہر ادارے کے اشارے محبوبہ کے اشاروں کی طرح ہوگئے ہیں، اچھے لگتے ہیں پر فائدہ نہیں ہوتا، ہر ادارہ اپنے اندر ایک ریاست ہے، کسی پر تنقید کرو تو پتہ چلتا ہے کے ادارے کا وقار مجروح ہوگیا، کبھی وطن پرستی شک میں پڑجاتی ہے، کبھی سننے کو ملتا ہے میرے ادارے کو کچھ نہ کہا جائے میں بھلے جیسا بھی ہوں۔ رہ گئی عوام تو انکے لیے کبھی قیمے والے نان تو کبھی احساس پروگرام۔
مملکت خداداد میں اسلام بھی ہر چھٹے مہینے خطرے پڑ جاتا ہے، کمبخت فرنگی ہماری اس دکھتی رگ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، مغرب میں کوئی بیہودہ شوشہ چھوڑتے ہیں اور انارکی مملکت خداداد میں پھیل جاتی ہے، گھیراو جلاو، مذاکرات، میڈیا پر ہنگامہ پھر ہنگامی اجلاس اور سیاسی دھارے میں شمولیت۔ یہ سب کچھ کسی نہ کسی شکل میں گذشتہ چوھتر سالوں سے چل رہا ہے۔
تعلیمی صورتحال بھی عجیب ہے آجکل مختلف تعلیمی بورڈز میں میں طلبہ میں نمبر بانٹنے کا مقابلہ زوروشور سے جاری و ساری ہے، 1100/1100 تو عام سی بات ہو ہوگئی ہے کبھی کبھی تو 1200/1100 بھی آجائے ہیں ہر حیرت نہیں ہوتی ساری صورتحال پر بس آخر میں یہ ایک تبصرہ کیا جاسکتا ہے، گندا ہے پر دھندا ہے یہ۔