Video Leak Ho Gayi
ویڈیو لیک ہو گئی
صاحبو آجکل سماجی میڈیا کا دور ہے، اس دور میں معلومات بڑی تیزی سے دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے پر پہنچ جاتی ہیں۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ وائرل ہوجائے۔ اسکی ایک بہت بڑی وجہ سماجی میڈیا کے توسط سے ملنے والی رقم بھی ہے، اس شہرت اور پیسے کے کھیل نے اخلاقیات کا بلکل دیوالیہ ہی نکال دیا ہے۔ پہلے کسی کی چاہے مرد ہو یا زن، اسکی کوئی جانے انجانے میں کی گئی غیر اخلاقی حرکت عوام کے سامنے آجانے پر مذکورہ شخصیت شرمندگی کے مارے زندہ درگور ہوجاتی تھی اور آجکل اسکو اپنی ویڈیوز پر لائک کی فکر پڑ جاتی ہے۔
ہر خاص و عام کی مختلف ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوگئی ہیں خاصکر خواص کے خاص نجی لمحات کی، اب یہ ویڈیو بنتی کیسے ہے پھر سماجی میڈیا کی زینت کیسے بنتی ہیں کیا فریقین میں سے کوئی اس سارے فعل میں خود ملوث ہوتا ہے۔ یا یہ سب کچھ کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوتا ہے، یہ سب کچھ منظر عام پر آنا ضروری ہے، کبھی کسی وزیر تو کبھی کسی بڑے افسر کی نازیبا حرکات منظر عام پر آجاتی ہیں اور پھر ان پر مختلف صحافیوں کے تبصروں کی ویڈیوز، سماجی میڈیائی بقراطوں کے تبصرے، ایک بھونچال سا آجاتا ہے۔
دوسری طرف فنکار برادری کے لوگ بھی کم نہیں، کچھ عرصہ قبل ایک خاتون گلوکارہ کی کچھ نجی تصاویر سماجی میڈیا پر وائرل ہوئی جو انہوں نے خود بنائی تھیں نجانے انکے موبائل سے کیسے باہر نکلیں، بہرحال تصویر کشی کے اس عمل کو محترمہ نے اللہ اور اپنے درمیان کا معاملہ قرار دیا اور پھر اسلامی مبلغہ بن گئیں۔
ملازموں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں گھر میں میاں بیوی کے جھگڑے، باپ بچوں کو پیٹ رہا ہے۔ وغیرہ وغیرہ کی ویڈیوز۔ اب نجانے یہ ویڈیوز کیوں بنتی ہیں کیا جان بوجھ کر بنائی جاتی ہیں اور پھر وائرل کی جاتی ہیں۔
وڈیروں، جاگیرداروں کی زیادتیاں، ملاوٹ، چوری ڈکیتی، چھیڑچھاڑ وغیرہ انکی آگاہی اور تدارک کے لیے بنائی گئی ویڈیوز یقینی طور پر ایک کارآمد عمل ہیں، کسی عوامی مسئلے کی نشاندہی بھی قابل ستائش ہے، عوام کو بنیادی شعور دینے کے لیے بھی اگر کوئی سماجی میڈیا پر کام کیا جائے تو لائق تحسین ہے پر افسوس ہم لوگ صرف اسکینڈلز، سیاسی الزامات اور مرچ مصالحے سے بھرپور مناظر اور تحریروں میں ہی دلچسپی لیتے ہیں۔ سنجیدہ کام سنجیدگی سے لیا ہی نہیں جاتا۔ رہ گئی لوگوں کے خاص لمحات کے مناظر انکی منظر کشی کی اجازت سماج و مذہب دونوں نہیں دیتے بھلے وہ کسی ناجائز رشتے کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہوں۔ اسلام نے بھی ہمیں گھر کے سامنے سے آنے کی تلقین کی ہے چوری چھپے نہیں اور ساتھ ہی اہل خانہ سے پہلے اجازت طلب کرنے کا حکم بھی دیا ہے، مگر اب سب ہاتھ میں موبائل پکڑے جاسوسی کرنے میں لگے ہیں۔ نجانے یہ جنون کہاں جاکے رکے گا۔
خواص اور مشہور افراد کی لیک ویڈیوز اپنی جگہ پر عام افراد بھی اپنے خاص لمحات کے مناظر کیمرے کی زد میں لے آتے ہیں اور پھر یہ مناظر عوامی ہوجاتے ہیں، اللہ پاک نے ہر عمل کی کچھ حرمت قائم کی ہے ان کی حدود و قیود کو قائم رکھنا اشد ضروری ہے۔
ہم آج جو عمل کریں گے آگے یا جو آج بویئں گے آگے چل کر وہی کاٹے گے، ہماری آنے والی نسلیں اگر ہم سے یہ سب کچھ سیکھ کر آگے بڑھیں گی تو انکی آنے والی نسلیں کیا سوچ رکھیں گی، شاید شہر کے ہر حمام اور ہر خواب گاہ میں ایک کیمرا نصب ہوگا۔ یہ ہمیں آج ہی سوچنا ہوگا۔ سماجی میڈیا سے فرار ممکن نہیں، مگر ہمیں اسکو انتقامی کاروائی کے لیے نہیں بلکہ اخلاقی اور اجتماعی بہتری کے کاموں کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنی مذہبی اور سماجی اقدار کے مطابق ہی ہر کام کرنا چاہیے۔
سماجی میڈیا اس دور کی سب سے کارآمد ایجاد ہے ہمیں اسکو کارآمد بنانا ہے نہ کہ اسکا آلہ کار بننا ہے۔ شہرت اور دولت دونوں ضروری ہیں مگر دنیا سے واپسی اٹل ہے۔ دنیا سے جانے بعد صرف انسان کی یادیں رہ جاتی ہیں۔ جو اسکے اعمال کے مطابق ہوتی ہیں پر اب تو بے حیائی کو Boldness کا نام دے دیا گیا ہے اور سب کچھ وائرل ہو رہا ہے۔
بس اس وائرل اور لیک فوبیا سے بچنا ہوگا۔ اور کسی کے گھٹیا پن کی وجہ سےکوئی منظر کشی عوامی ہوجاتی ہے تو خود کو اسکی تشہیر سے بچانا ہوگا۔ باقی رہے نام اللہ کا۔