Siasi Badshahat
سیاسی بادشاہت
صاحبو اس سال یعنی چودہ اگست سنہ 2022 میں پاکستان پچھتر برس کا ہوجائے گا۔ کلمہ کے نام پر مسلمانوں کے لیے حاصل کیا گیا ملک جس میں انسانی تاریخ کی ایک بہت بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی، لاکھوں جانیں گئی، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، ہزاروں آنچل تار تار ہوئے۔ پھر ملا ہم کو ہمارا پاکستان۔ یہ سب کچھ اس آس میں ہوا کہ برصغیر کے مسلمان آزاد فضا میں سانس لیں سکیں اور اپنے عقائد کے مطابق اپنی زندگی گذارسکیں۔
آزادی کے پچیس برس کے اندر ہی مملکت خداداد کی کوکھ سے ایک اور آزاد اور مسلم ریاست نے جنم لیا نام ہے بنگلہ دیش، جسکے جنم کی وجہ شاید زبان اور غیر منصفانہ جغرافیائی تقسیم تھی۔ موجودہ پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو مملکت خداداد نے گذشتہ تقریبا پچیس برسوں میں بڑے نشیبوں فراز کا سامنا کیا خاص کر سیاسی۔
مارشل لاء بھی دیکھے اور جمہوریت بھی، پر خاص کر یہ جمہوریت تو ہمیں راس ہی نہیں آتی، بس انتقام ہی نظر آتا ہے۔ کوئی بھی منتخب حکومت اپنا وقت پورا نہیں کرپاتی اور وقت سے پہلے ہی اسقاط حمل کروالیتی ہے۔ آزادی کے ابتدائی سالوں میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان جیسے لیڈران نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی۔
نومولود ملک، جس سے الگ ہوئے ظاہر ہے اسکے بغض کا سامنا تھا۔ قائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی قیام پاکستان کے پہلے سال میں ہی چل بسے جبکہ لیاقت علی خان کو 1951 میں گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ پاکستان کا کوئی بھی جمہوری وزیراعظم خود سے مدت پوری کرکے نہیں گیا بلکہ یا تو اسکا تختہ الٹ دیا گیا یا نااہل قرار دیا گیا۔
عمران خان پہلے وزیراعظم ہیں۔ جن کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹایا گیا۔ قیام پاکستان کے وقت برطانوی سرکار کے مقامی وفاداران کی اولادیں آج نسل در نسل اس ملک کی سیاسی نظام کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، اس میں کچھ اور اضافہ بھی ہوا ہے، پر اس وقت دیکھیں تو دو بڑی سیاسی پارٹیاں پاکستان کو اپنی خاندانی میراث سمجھتی ہیں، اور اپنی خاندانی قربانیوں کی بنا پر ملک پر قابض رہنا چاہتی ہیں۔
ان حالات می عمران خان نے بائیس سال لڑائی لڑی اور جیسے تیسے کرکے ہر پارٹی کے سرکردہ مجاہدوں کو ملاکر تحریک انصاف کے نام سے ایک پارٹی بنائی اور پھر 2018 میں حکومت بنائی۔ اس پکڑ دھکڑ حکومت نے ساڑھے تین برس شور و غلغلہ بہت کیا اور خان چوروں کو نہیں چھوڑوں گا کا نعرہ لگاتے رہے پر، اور "عوام اب ہوگا انصاف بنے گا نیا پاکستان "کی امید لگا کر بیٹھے رہے، پر پھر یوں ہوا ایک روز پھر سب چھوٹ گئے اور خان صاحب وزیراعظم سے صرف خان صاحب رہ گئے اور ہم پھر سے پرانے پاکستان میں واپس آگئے۔
خان صاحب اپنی حکومت جانے کو غیر ملکی سازش سمجھتے ہیں اور اب عوام کو ہر طرح سے یہ سمجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ پاکستانیوں غلامی سے نکلو اور خود مختار بنو۔ پاکستان کی سیاست میں تقریبا سب کو آزمایا جاچکا ہے، بلکہ کئی کئی بار آزمایا جا چکا ہے۔ اس دفعہ وزیراعظم جو خان صاحب کو کھسکا کر آئے ہیں یعنی شہباز شریف اگرچہ پہلی دفعہ وزیراعظم بنے ہیں، پر خاندان وہی برسوں پرانا شریف خاندان۔ اب موجودہ حکومت قریبا گیارہ جماعتوں کا اتحاد ہے کاش، ملک کی خاطر بھی یہ سب متحد ہوجائیں۔
اس دفعہ کابینہ کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شریف لوگ بھی ہیں، حاکم بھی ہیں اور دیندار یعنی مولانا بھی۔ ملک کی پچھتر سالہ کارکردگی دیکھ کر کبھی کبھی دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کیوں نہ بلکل نئی قیادت لائی جائے، جسکو ہر زبان بولنے والے سے پیار ہو، ہر صوبے کو یکساں اہمیت دے، ہر ایک کو ایک جیسے مواقع حاصل ہوں، لوگ بیرون ملک جانے کی بجائے پاکستان میں کام کرنا پسند کریں۔ ہم ترقی میں سب کی برابری کریں۔ خانصاحب کچھ ایسے ہی دعوے کرتے ہیں، کیوں نہ ایک دفعہ خانصاحب کو واضح اکثریت دلاکر دیکھ لیں۔ شاید تبدلی آجائے