Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Shoq Celebrity Banne Ka

Shoq Celebrity Banne Ka

شوق سیلیبریٹی بننے کا

صاحبو ایک دور تھا جب فلمیں دیکھنا ایک بڑی تفریح مانا جاتا تھا، سینما ہال میں لوگ بمعہ اہل و عیال فلمیں دیکھنے جاتے تھے ٹکٹیں بلیک میں بکتی تھیں، فلموں کے اداکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے عوام کا ہجوم آمڈ آتا تھا۔ وقت بدلا ٹی وی آگیا ڈراموں اور دوسرے تفریحی پروگراموں نے معاشرے کو کئی اور سیلبیریٹی دیے۔ فلمیں اور ٹی وی پر کام کرکے راتوں رات شہرت اور دولت پانے کی خواہش نے کئی زندگیاں تباہ کی اور کچھ کو تو ایسی فقیدالمثال شہرت عطا ہوئی کہ اگر وہ چھینکتے بھی ہیں تو خبر بن جاتی ہیں۔

فلم ہو یا ٹی وی کے پروگرام خاصی ہنر مندی کا تقاضا رکھتے ہیں ہر ایک کے بسں کی بات نظر نہیں آتی، اسکے لیے جدید تکنیک، جدید آلات اور تخلیقی اذہان کو ضروری گردانا گیا۔ عام آدمی بسں اس شہرت دوام کے خواب ہی دیکھتا رہ جاتا ہے۔

بہرحال صاحب آج کا دور سماجی میڈیا کا دور ہے، فیس بک، یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک وغیرہ نے ہر خاص و عام کو مشہور ہونے کے مواقع فراہم کردیے ہیں۔ ٹی وی چینلوں کی بھر مار، نت نئی فلمیں ویب سیریز وغیرہ وغیرہ اتنا کچھ تفریح اور معلومات کے نام پر عوام کو دیدیا ہے کہ دیکھنے والے خود پریشان ہیں کیا دیکھیں اور کیا نہ دیکھیں، لوگوں کے لیے اب گھنٹوں پردہ سیمیں پر نظریں جماکر بیٹھنا مشکل ہوگیا ہے۔ اب لوگ دو تین منٹ کی ویڈیو دیکھ لیتے ہیں بھلے سبق آموز ہو یا اخلاق باختہ۔ موبائل فونز نے تماش بینی کی سہولت ہر ایک کے لیے عام کردی ہے۔

سماجی میڈیا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا ہنر سامنے آیا چاہے وہ تعلیمی میدان ہو یا فنکارانہ، نئے نئے کردار سامنے آئے۔ حتہ کہ فلمی اداکاروں اور دیگر سیلیبریٹیوں کو بھی اپنی شہرت برقرار رکھنے کے لیے سماجی میڈیا کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ مگر صاحب شہرت کی اس دوڑ نے لوگوں سے کیا کچھ نہیں کروادیا۔ مینار پاکستان پر چودہ اگست کو ایک ٹک ٹاکر خاتون کے ساتھ ہونے والا واقعہ جو اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ زیر بحث معاملہ ہے۔ اس واقعے میں کون قصور وار ہے کون ذمہ دار اس پر روزانہ ہمارے جیسے سماجی میڈائی بقراط ایک نئی تحقیق لے آتے ہیں۔ جو متاثرہ خاتون کے حق میں بولتا ہے اسکو خاصی لعن طن کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، یاسر شامی اور اقرار الحسن دو میڈائی ستارے آجکل زیر عتاب نظر آتے ہیں، مگر اس مخالفت کے باجود آجکل میڈائی ٹاپ ٹرینڈ میں شامل ہیں۔

جو لوگ ان چارسو لوگوں کے ہجوم کو قصور وار ٹہراتے ہیں انکو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ سب متاثرہ خاتون کی دعوت پر وہاں آئے تھے، اب مہمانوں کی خاطر تواضع کردگئی تو بیچارے مہمانوں کا کیا قصور۔ ایک معروف ڈرامہ نگار سے ایک صحافی نے دریافت کیا کیا ٹک ٹاکر سیلیبیرٹی ہیں، موصوف نے فرمایا ہرگز نہیں، اب سوال یہ ہے کہ آجکل کے انٹرنیٹ دور نے معلومات کا وہ طوفان کھڑا کیا ہے کہ بچہ پیدا کرنے سے لیکر بم بنانے تک سارے نسخے بابا گوگل پر موجود ہیں، اس سیلاب کو کیسے روکا جائے، فنکار برادری پریشان، اساتذہ پریشان، ہنر مند پریشان، مذہبی علما پریشان کہ سماجی میڈیا پر پابندی کا فتوعی دیں یا نہ دیں۔ کیونکہ دین کی تبلیغ کے لیے، سماجی میڈیا ایک موثر ذریعہ ہے۔

مگر ایک اہم مسئلہ اس سماجی میڈیا کے ساتھ یہ کھڑا ہوگیا ہے کہ کے لوگ خاص طور پر بہت پہلے سے بنے سیلیبیرٹیوں کی گھریلوں موبائل یا کمپیوٹر پر کھینچی گئی تصاویر یا ویڈیوز جو خالصتا نجی نوعیت کی ہوتی ہیں نجانے کیسے باہر آجاتی ہیں جسکے بعد، تردیدیں تاویلیں، معاملہ اللہ کے ساتھ ہے وغیرہ وغیرہ اس قسم کے بیانات سامنے آتے ہیں اور وہ تمام لوگ مزید شہرت پاتے ہیں اور ساتھ میں فالورز کی تعداد میں مزید اضافہ مفت میں ملتا ہے۔ ایک گلوکارہ ایسے ہی ایک واقع کے بعد تو باقاعدہ مبلغہ بن گئیں اور قرآنی تعلیمات پر مبنی ویڈیوز بنانے لگ گئیں۔

بہرحال صاحب ہر خاص و عام آجکل صحافی، اداکار، گلوکار، اور نجانے کیا کیا بن رہا ہے۔ یہ شوق شہرت اور دولت نجانے ہم سب کو کہاں لے جاکر چھوڑے گا۔ ذیادتیوں کے واقعات میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے، پہلے والدین شرمندگی کی وجہ سے ایسے واقعات چھپاتے تھے اب خود سماجی میڈیا پر آکر بتاتے ہیں۔ سماجی میڈیا نے رحمان اور شیطان سب کو ایک ساتھ پیش کردیا ہے۔باقی اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہے۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz