Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Shehar e Quaid Ko Saaf Rakhein

Shehar e Quaid Ko Saaf Rakhein

شہر قاہد کو صاف رکھیں

شہر کی اک پر رونق شاہراہ سے گزرتے ہوئے ایک ساہن بورڈ پر نظر پڑی۔ شہر قاہد کو صاف رکھیں۔ اس یاد دہانی پر دل باغ باغ ہوگیا۔ قائد کی جدوجہد ایک فلم کی طرح دماغ میں گھوم گئی۔ اچانک بدبو کا ایک عظیم جھونکا میری سانسوں کو معطر کرگیا۔ نظریں دائیں بائیں دوڑائیں کے اس مہک کی وجہ جان سکوں۔ کچھ نظر نہ آیا آسمان کی طرف دیکھا تو باراں رحمت کے آثار نظر آرہے تھے۔ مہک کی وجہ پھر بھی سمجھ نہ آئی۔ اپنی اس بے اختیاری پر دل پسیج گیا۔ شرمندگی سے نظریں جھکیں ہی تھیں کہ ساہن بورڈ کے عین نیچے کچرے کا ایک عظیم الشان پہاڑ نظر آیا۔ شہر قائد کی اس بے حرمتی پر آنسو نکل پڑے۔ اس پہاڑ کی عظمت کو جاننے کے لیے کچھ دیر ساہن بورڈ کے نزدیک ٹھہرنے کا ارادہ کیا۔ اور کرونا کے ماسک سے منہ چھپا لیا۔ تھوڑی دیر ٹھہرنے پر اندازہ ہوا کہ آس پاس کے دکاندار اور رہائشیوں کے گھروں میں کام کرنے والے ملازمین جو منی پاکستان میں روزگار کی تلاش میں آئے ہوے ہیں۔ پوری تندہی کے ساتھ اس کچرے کے ڈھیر میں اضافی کررہے تھے۔ کیونکہ زیادہ تر گاوں دیہات کے لوگ تھے سمجھ رہے تھے کہ کچرا مٹی میں ملکر کھاد بن جاے گا۔ مگر صاحب سڑک حیرت انگیز طور پر پکی تھی۔ اور کافی عرصہ سے پکی تھی۔ عجب ٹھیکیدار تھا۔ دل مزید بوجھل ہوگیا واپسی کا ارادہ کیا پیاس بھی لگی ہوئی تھی قریب کی دکان سے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کی معادنی پانی یعنی منرل واٹر کی بوتل لی۔ دکان پر متحدہ عرب عمارات کے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر لعن طعن جاری تھی اور یہودیوں کے جہنمی ہونے کے دلائل دیے جارہے تھے۔ ہم نے بھی اس کار خیر میں بھرپور حصہ ڈالا آگے بڑھے۔ فرنگی پانی سے پیاس بجھائی۔ خالی بوتل پھنکنے کا ناگہانی مسئلہ سر پر آنکھڑا ہوا۔ نگاہوں نے کچرا دان تلاش کیا۔ کچرا دان شہر قائد کو صاف رکھئے والے بورڈ کے عین نیچے تھا۔ مگر کچرے کی وجہ سے کچھ چھپ سا گیا تھا۔ بہرحال ہم نے فرنگی پانی کی بوتل کچرا دان کی طرف اچھالی۔ حکمرانوں کی نالاہقی اور عوام کی بے حسی پر دل ہی دل میں اظہار تاسف کیا اور گھر کی طرف جل پڑے۔

صاحب شہر کراچی میں سب سے آسان کام کچراکنڈی بنانا ہے سب سے آسان کام ہے۔ کسی کھیل کے میدان کا بیڑا غرق کرنا ہو یا کسی نالے میں پانی کا بہاو روکنا ہو یا اگر آپ اپنے کسی محلے دار کو دوسروں کو نظروں میں خراب کرنا چاہتے ہوں، بس صبح دفتر جاتے ہوئے ایک کچرے کی تھیلی مزکورہ بالا تینوں جگہوں پر ڈال دیں آپ کی دفتر واپسی سے پیشتر کچرے کا ایک عظیم اشان ڈھیر آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہوگا اور تو اور میڈیا کے جانے مانے نمایندے کسی کیمرہ مین کے ساتھ حکومت کی نااہلی کا ڈھنڈورہا پیٹنے پہنچ جائیں گے۔۔ کچھ سیاسی پنڈت ذمے داروں کے پتلے کچرے کے ڈھیر پر لگا کر اپنا ووٹ بینک پکا کرنے میں مصروف ہوجائیں گے۔ کوئی ذمہ دار برائےکچرا بے اختیاری کا رونا روئے گا کسی کو وفاق سے فنڈز نہ ملنے کئ شکایت ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال قائد کا شہر خاصا بے قائدہ ہوکر رہ گیا ہے۔

نوجوان جو کسی بھی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور مستقبل کے روشن ستارے بھی۔ آجکل آلووں کے بڑے دیوانے ہوتے جارہے ہیں اور آلووں کے فرنگی فرایز کھا کھا کر موٹے بھی ہو رہے ہیں۔ جہاں آلووں کے ان فرایز کے ٹھیلوں نے کچھ لوگوں کے روزگار کا مسئلہ کچھ حد تک حل کیا وہیں سرراہ فرایز کھا کر ڈبہ جہاں ہے جیسا ہے کی بنیاد پر پھنک دیا۔ قائد کی روح شاید ںوجوانوں کی اس حرکت پر آلو آلو ہوجاتی ہوگی کیونکہ قائد نے نوجوانوں کے تحریک پاکستان میں بھرپور شرکت کی بنیاد پر ہی پاکستان حاصل کیا تھا۔ اب قصور آلووں کا ہے یا نوجوانوں کا فیصلہ بہرحال نوجوانوں کا ہے۔ قصہ مختصر یہ حال تو متوسط علاقے کے نوجوانوں کا ہے۔ اب آیے امیر طبقے کے بچے اور نوجوان یعنی برگر بچے۔ یہ طبقہ برانڈڈ دکانوں کے آلو کھاتا ہے اور کچرا کرونا کی وبا سے پہلے میز پر ہی چھوڑدیتا تھا جسکو کوئی شریف زادہ یا زادی مناسب طریقےسے کچرا کنڈی میں ڈال دیتا تھا، آجکل کرونائی دور ہے ریستورانوں میں کھانے کی ممانعت ہھی تو آلووں کا شوق گاڑی میں بیٹھ کر پورا کرنا پڑتا ہے۔ اسکے نیتجہ کا کچرا تو کوئی شریف زادہ لے جاتا ہے مگر کولڈرنک کی بوتل یا آیس کریم کی تھیلی یا ڈبہ سڑکوں کی زینت بنتا ہے۔ کیونکہ یہ شوق تو دوران ڈرائیونگ ہی پورا ہوتا ہے۔

کراچی شہر نے سبکو سب کچھ دیا اسکو ننھا پاکستان کہا جاتا ہے۔ مملکت خداد کے ہر کونے سے آنے والے کو اس شہر نے اپنے سینے سے لگایا۔ روٹی کپڑا مکان سب کچھ دیا۔ مگر شاید کوئی اسے اپنا نہ بنا پایا۔بہرحال صاحب شہرقائد میں عوام، حکمران، سیاستدان اور سرکاری اہل کار ملکر روح قائد کو جو ایصال ثواب پہنچا رہے پیں اسکا جواب تو شاید قائد سے ملکر پی دینا پڑے گا شہر قاہد کو صاف رکھیں۔

Check Also

Nange Paun Aur Shareeat Ka Nifaz

By Kiran Arzoo Nadeem