Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Qurbaniyan Dete Rahein

Qurbaniyan Dete Rahein

قربانیاں دیتے رہیں

صاحبوں مملکت خداداد 1947 میں بے مثال جانی اور مالی قربانیوں کے بعد حاصل ہوا جہاں برصغیر پاک و ہند کے مسلمان یہ سوچ کر ہجرت کر کے آئے کہ نئے پاک وطن میں اسلامی نظام ہو گا، کیونکہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا۔ امن و امان ہو گا، بھائی چارا ہو گا۔ زبان کے نام پر کوئی آپس میں گتھم گتھا نہیں ہو گا ہر ایک کو بنیادی سہولیات حاصل ہونگیں، برابری کا مقام ملے گا وغیرہ وغیرہ۔

پچھتر سال ہونے کو آئے پر قربانیاں دینے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر سال حکومت وقت خاص طور پر جمہوریت کی دعویدار، عوام سے قربانیوں کی مزید درخواست کرتی نظر آتی ہیں، بدعنوانی کے ایک سے بڑھ کر ایک بھیانک دعوے نتیجہ صفر، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا حاصل وصول کچھ نہیں، عوام پر مہنگائی اور قرضوں کا نہ ختم ہونے والا بوجھ۔

اوپر سے سیاسی بقراطوں کے عظیم مدبرانہ مشورے عوام کو چاہیے دو کی بجائے ایک روٹی کھائیں، چائے کی ایک پیالی کم پیئں، ایک روٹی کے چار حصے کر لیں وغیرہ وغیرہ، پچھتر سال سے قوم قربانیاں دیتی آ رہی ہے اور حکمران تجوریاں بھر رہے ہیں۔ فرنگی سے آزادی اس بنیاد پر حاصل کی تھی کے نظام ہمارا ہو گا، ہمارا ملک ہماری مرضی پر قرضہ بھی لیتا ہے وہ بھی فرنگیوں سے، ملک میں ترقیاتی کام کروانے ہیں وہ بھی فرنگیوں سے، شہریت بھی فرنگی دیس کی درکار ہے، یعنی آذان ہماری اسپیکر فرنگی کا۔

کیا وجوہات ہیں کہ ہم پچھتر سال میں بھی ایک نہ ہو سکے۔ ہجرت کر کے آنے والے اس زمین کے بیٹے نہ کہلا سکے۔ ہم سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچ، مہاجر، سرائیکی، براہوی نجانے کیا کیا ہیں؟ بے شک قربانیاں دینے میں ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہیں، سرحدوں پر حالات خراب ہوں قوم یک جان ہو جاتی ہے، اپنا پیٹ کاٹنے کو ہر لمحہ تیار رہتی ہے۔

خیراتی ہسپتال، لنگر خانے اور ذاتی حیثیت میں خیرات غرض ہر بات کے لیے تیار، رہ گئی معیشت اسکی صورتحال تو محبوبہ کی طرح ہروقت نازک ہی رہتی ہے، اور روٹی کے چار حصے کرنے پڑتے ہیں۔ اپنی ہنر مندی، اپنے ادراک کو بڑھا کر نجانے کب اپنے پیروں پر کھڑے ہونگے، ایٹم بم ہم نے بنا لیا نجانے بھوک بم کب بنائیں گے؟ ایٹمی قوت ہم بن گئے پر معاشی قوت بننے میں پتہ نہیں کتنی خون کی بوتلیں اور دینا ہونگی؟

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra