Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Shariq Waqar
  4. Kya Hum Bhook Bech Rahe Hain?

Kya Hum Bhook Bech Rahe Hain?

کیا ہم بھوک بیچ رہے ہیں ؟

صاحبو رمضان کا متبرک مہینہ کی آمد آمد ہے۔ اہل ایماں اس متبرک مہینے میں روزوں کے ساتھ نیکی کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ شہر میں فلاحی تنظیمیں کھلاڑی فنکار اور انفرادی حیثیت میں لوگ سحر و افطار کا بڑے سے بڑا دسترخوان سجانے میں لگے ہوئے ہیں باوجود کرونا کے۔ حکومت بھی پیچھے نہیں لنگر خانے، پناگاہیں سب اس کار خیر میں حصہ لے رہے ہیں بلکہ اب تو اپنے دوست ممالک کو بھی اس کارخیر میں ہاتھ بٹانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہر طریقے سے اس کی تشہیر بھی خوب کی جا رہی ہے۔

باوجود ان سب عوامل کے ضرورت مندوں کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے والے لوگوں سے لےکر سفید پوش تک سبھی کسی مسجد میں، کسی دکان پر یا کسی سگنل پر نظر آرہے ہیں۔ کیا یہ صحیح نہیں کہ ہم سرعام دستر خوان وسیع کرنے کے بجائے لوگوں کو ان کے گھر میں اہل و عیال کے ساتھ باعزت ان کے گھر کا دسترخوان آباد کرنے میں مدد کریں؟ لنگر خانوں کی جگہ کارخانوں کو ترجیح دیں؟ جس دن یہ سب ہوگیا سمجھ لیں ہم دنیا میں پہلے نمبر پر ہونگے 128 ویں پر نہیں۔

مملکت خداداد کے سب سے بڑے اقتصادی شہر کراچی کے حالات سب کے سامنے ہیں۔ یہ شہر نہ صرف سب سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے بلکہ سب سے زیادہ صدقات خیرات بھی۔ ملک کے طول و عرض سے نہ صرف لوگ یہاں روزگار تلاش کرنے آتے ہیں۔ بلکہ اب تو ہر طرح کا ضرورت مند کراچی کی عوام کے سامنے اپنے مسائل لےکر آجاتا ہے۔ مساجد میں جائیں تو ملک کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مولانا حضرات مدرسے کی تعمیر و اخراجات کے لیے سوال بلند کرتے ہیں اور کراچی کی عوام ثواب کی حقدار بنتی ہے۔ ہر گلی کوچے میں کراچی میں آئے ہوئے دوسرے شہروں کے رہائشی صبح کا ناشتہ، روٹی یا راشن کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں۔

ہر مسجد میں قریبا ہر جماعت کیا خواتین کیا مرد، غرض ہر کوئی مالک مکان کی زیادتی، گھر سے نکالنے کی دھمکی کا تقاضا کرتا نظر آتا ہے، سمجھ نہیں آتا کہ حکومت کے پچاس لاکھ گھر کہاں گئے؟ بیمار ماں، جوان بہنیں یہ ذمہ داریاں الگ، ڈاکٹروں کے نسخے الگ۔ الغرض کراچی سب کے لیے سب کچھ کررہا ہے، چاہے حکومت ہو یا ہاتھ پھیلانے کے شوقین۔ سماجی تنظیمیں اس کام میں پیش پیش نظر آتی ہیں غربت ایک تو ویسے ہی تکلیف دہ ہوتی ہے اس پر کچھ سماجی کارکن گلا پھاڑ کر لوگوں کے مسائل کا ایسا نقشہ بیان کرتے ہیں کہ پتھر سے پتھر دل بھی پگھل جاتا ہے۔

اب ان لوگوں کی بات بھی کرتے ہیں جو امیروں سے چھیننا اور غریبوں کونہ دینا اپنا حق سمجھتے ہیں، اس میں بھی کراچی شہر نے بلا امتیاز مقامی اور غیر مقامی سب کو مواقع فراہم کیے ہیں، موبائل سے لےکر گھروں میں ڈاکے تک ہر سہولت دی ہے۔ بس اس پر یہی کہا جاسکتا ہے لگے رہو منا بھائی کراچی میں۔ حکومت لگان، غریب صدقات، لٹیرے لوٹ مار اور ہاں عطیات سماجی تنظیموں کے لیے۔ اب ڈر صرف اس بات کا ہے کہ IMFکہیں اس کا نوٹس نہ لے لے۔

Check Also

Wada

By Mubashir Aziz