1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Shariq Waqar/
  4. Jashan e Azadi

Jashan e Azadi

جشن آزادی

صاحبو جس وقت یہ سطور لکھی جارہی ہیں، چودہ اگست آنے میں صرف چند گھنٹے باقی ہیں، ہماری پچھترویں سالگرہ شکر ہے، ہم نے ایک آزاد ملک میں آنکھ کھولی، اس آزادی کے لیے ہمارے رہنماؤں تک نے اپنے سامراجی آقاوں تک کو انکے ہی دیس جاکر کہہ دیا تھا کہ وہ ایک غلام ملک میں مرنا پسند نہیں کریں گے۔ ہمارے بھی آج من پسند رہنما یہی کہہ رہے ہیں"غلامی نہ منظور" ہم آزاد قوم ہیں۔

چودہ اگست جشن آزادی کی خوشی میں نت نئے خون گرما دینے والے ملی نغمے ہر طرف گونج رہے ہوتے ہیں، چودہ اگست پر ہر گلی سبز ہلالی پرچم سے سجی ہوتی ہے اور پندرہ اگست کو سڑکوں پر پرچموں کا ڈھیر، آزادی کے اصل معنی کیا ہیں، فلم شگاف نعرے، ملی نغمے ترانے، ملک کی خاطر قربان ہوجانے کا بھر پور جزبہ یا کچھ اور ہمیں آزادی کیوں چاہیے۔

اپنے مذہبی عقائد پر عمل کرنے کی بلا روک ٹوک اجازت، اپنے معاشی معاملات خود چلانے کی اجازت، اپنا تعلیمی نظام خود بنانا اور خود چلانے کی آزادی تحقیق و جستجو کی آزادی۔ اپنی مرضی کے کھیل کھیلنے کی آزادی، دنیا میں اپنی مہارت اور دنیا کے ساتھ پیشہ ورانہ مقابلہ کرنے کی آزادی۔ اپنی زبان میں اپنا تجارتی اور تعلیمی نظام چلانے کی آزادی۔ انصاف کرنے اور پانے کی آزادی۔

دنیا میں ہر جگہ ایک عزت دار اور خود مختار قوم کہلانے کی آزادی۔ کیا ہم گذشتہ پچھتر سالوں میں یہ سب کچھ کر پائے۔ آج کے پاکستان میں ہر روز ایک نیا بیانہ پھر قربانیوں کی طلب، جو لوگ پچھتر برس قبل اسی مذکورہ بالا آزادی کی خاطر ایک نئے نو مولود ملک میں آئے آج وہ اور اس خطہ کے دیگر رہائش پذیر ابھی بھی بیانیوں پر ہئ اکتفا کر رہے ہیں۔

ان پچھتر برسوں میں ہم نے کیا حاصل کیا ہم ایٹمی قوت تو بنے پر معاشی طاقت بننے میں ابھی تک طفل مکتب ہیں۔ تعلیمی میدان میں ہم اب بھی فرنگی سامراج کے طور طریقے ہی پسند کرتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں ہم نے بڑے بڑے نام پیدا کئے مگر انکے کام کہیں اور نظر آئے۔ ہم ترقی یافتہ ممالک کی صرف مثالیں دیتے نظر آتے، پر انکی ترقی سے سیکھتے نہیں مگر انکی ترقی برآمد کرکے اپنا قیمتی زرمبادلہ انہی ملکوں کو واپس کر دیتے ہیں۔

جن سے ادھار لیا ہوتا ہے۔ صفائی دینی لحاظ سے ہمارا نصف ایمان پر حاکم و محکوم دونوں گند پھیلانے کے ماہر پچھتر برس پہلے فرنگیوں سے ملا بنیادی ڈھانچہ چاہے وہ نظام کا ہو یا نقل و حرکت یا عمارتی آج بھی قابل عمل نظر آتا ہے، پر ہم اپنے ہی دیس کا پانی اہل فرنگ کی بوتل میں بھر کر پیتے ہیں، کیا کریں گھر کے پانی اور گٹر دونوں کی لاینئں اہل فرنگ ہی بچھا کر گئے، پچھتر سال سے ایک ساتھ تھیں، اب آپس میں مل گئیں ہیں۔

الغرض گذشتہ پچھتر برسوں سے ہم پھر سے کسی انقلابی لیڈر کا انتظار کررہے ہیں۔ جو ہمیں آزادی کے حقیقی معنوں سے روشناس کرانے اور اس ملک کو صحیح معنوں میں ایک خودمختار اور آزاد ملک بنا سکے، بس دعا ہے یہ سب کچھ جلد ہو کہیں یہ نہ امیگریشن ماہرین اس ملک سے دوسری ہجرت کرا بیٹھیں۔

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (1)

By Mojahid Mirza