Gunehgar Qaum Aur Selabi Relay
گناہگار قوم اور سیلابی ریلے
صاحبو مملکت خداداد اس وقت ضرورت سے زیادہ بارشوں کا شکار ہے جو ہر سال کی طرح بھیانک سیلاب کی شکل اختیار کر گیا ہے، جنوبی پنجاب میں بہت سے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گئے، انسانیت آسمان تلے آ گئی۔ خیراتی اداروں نے سیلابی فنڈ قائم کر دیے ہیں، جگہ جگہ بلوچستان، پنجاب اور اندرون سندھ کے نام پر چندہ اکٹھا کیا جا رہا ہے، اللہ رسول کا واسطہ دیکر پیسہ مانگا جا رہا ہے پر ان سیلابوں کی وجہ کیا ہماری ناقص منصوبہ بندی، ضرورت سے زائد بارشیں یا پڑوسی ملک کا دریاؤں میں پانی چھوڑ دینا ہے؟
ملک کی ایک عظیم دینی شخصیت جناب طارق جمیل جن کا عالم بالا سے براہ راست رابطہ بھی رہتا ہے، موصوف نے فلمی ستاروں، سیاستدانوں اور کھلاڑیوں کو راہ راست پر لانے کی بھاری ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے، رہ گئے غریب غربا ان کے لیے اللہ کا نام ہی کافی ہے۔ مولانا اور مقتدر سیاستدانوں کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ یہ سیلاب ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہے، کن کے گناہوں کا نتیجہ ہے؟
جن پر گزری وہ بیچارے تو گناہ کبیرہ کرنے کی سکت ہی نہیں رکھتے کبھی کبھی صغیرہ گناہ کر لیتے ہیں، جیسے روٹی چرا لی، باغ سے بنا پوچھے پھل توڑ لیا، کسی ندی نالے میں منہ لگا کر پانی پی لیا وغیرہ وغیرہ، ان سب کے عوض گھر کے گھر اجڑ گئے، ہمارے نیک متقی پرہیزگار حکمران عوام کے گناہوں کی تاب نہ لاتے ہوۓ بیرون ملک غم غلط کرنے چلے گئے۔ کوئی نیاگرا آبشار کے نظارے کر کے سیلابی غم غلط کر رہا ہے تو کوئی ترکی کی فضاؤں میں عوام کے لیے دعائے مغفرت فرمانے میں لگا ہے۔
کچھ صاحب حیثیت مکہ، مدینہ میں قوم کے لیے دعائیں کروا رہے ہیں، پر قوم ہے کہ مانتی ہی نہیں، حق و سچ کو پہچانتی ہی نہیں، خان صاحب بھی پیچھے نہیں مسلسل جسمانی ورزش میں لگے ہوئے ہیں، کیونکہ ہم کوئی غلام تھوڑی ہیں، جلسے پر جلسہ کیے جا رہے اور ان کے رفقاء اپنے اعضاء مخصوصہ پر بجلی کے جھٹکے کھا رہے ہیں، ایک آدھ جلسے کی رقم امدادی کاموں پر لگا دیں عوام کا کچھ بوجھ ہی کم ہو۔
دنیا کی ساری گناہ گار اقوام کی اکثریت جو ماضی میں آسمانی اور انسانی ہر طرح کے مصائب جھیل چکی ہیں، غلطیوں سے سبق سیکھتی ہیں اور مسئلہ کا حل سوچتی ہیں اور ہم چونکہ اللہ کی پسندیدہ قوم ہیں، ایسے حالات میں صرف چندے جمع کرتے ہیں، کیونکہ جنت میں قوم کے جانے کا وعدہ تو ہمارے نبی نے کیا ہوا ہے بس ہمیں جانے کی تیاری کرنی ہے۔
پچھتر سالوں میں مملکت خداداد کم و بیش پچھتر سیلاب دیکھ چکی ہے، مجھے غالبا 2007 میں سندھ آنے والے ایک سیلابی ریلے پر اس وقت کی حکومت کی ایک خاتون رکن کا ایک بیان جو انہوں نے ایک مشہور ٹی وی چینل پر دیا یاد آ رہا ہے، محترمہ کے نام کے آگے ڈاکٹر بھی لکھا جاتا ہے، وجہ مجھے معلوم نہیں، فرماتی تھیں، ہمارا سب کچھ تباہ ہو گیا، گنے کی فصل تباہ ہو گئی۔
چاول کی فصل تباہ ہو گئ، سارا اناج برباد ہو گیا، ہمیں بیرونی امداد کی ضرورت ہے، موصوفہ آج کل حزب اختلاف میں ہیں، ویسے ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر آج کل بجلی کے جھٹکے کھا کر جنسی تشدد کا شکار ہو رہے ہیں، گناہ گار عوام کی خاطر۔ صاحب بات عوامی گناہوں کی ہو رہی تھی پر صاحب عوام گناہ گر سہی، سرکار بھی تو دلدار نہیں۔
عزت مآب مولانا صاحبان اور دیگر میڈیائی دانشوروں سے جن کو غیب سے بشارتیں ہوتی ہیں، گزارش ہے اس وقت حزب اقتدار اور اختلاف کے سیلابی اتحاد کے لیے وقتی طور پر اوپر سے کوئی آرڈر لے لیں تاکہ اس سیلابی ریلے کا کم از کم وقتی تدارک ہو سکے، حل تو شاید ہم کبھی نہیں نکالیں گے کیونکہ اصل وجہ ہمارے گناہ ہیں، پچھتر سال نکال لیے انشاءاللہ آگے بھی مزید نکال لیں گے، ویسے بھی ساری زندگی دنیا میں تھوڑی رہنا ہے۔