Electables Se Deliverables Tak
الیکٹیبلز سے ڈیلیوریبلز تک
صاحبو ایک طرف موجودہ حکومت کی دو سالہ کارکردگی اور عوام کی بڑھتی ہوئی مایوسی، دوسری طرف متحدہ اپوزیشن کا کرونائی ماحول میں جلسے جلوس کرنا اس بات کی نوید سنا رہے ہیں کہ شاید عوام پھر تبدیلی چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم صاحب اپنی ذاتی حیثیت میں ایک بے داغ شخصیت ثابت ہوۓ ہیں۔
ماضی میں بھی چند شریف النفس لوگ کرسی، صدارت اور وزارتِ عالیہ تک پہنچے پر مگر ان کی شرافت ایک مثال ہی بن کر رہ گئی۔ وزیر اعظم خود بے داغ سہی مگر ان کے دائیں اور بائیں بازووں کی مایوس کن کارکردگی نے عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ پھر سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئ۔
موجودہ وزیروں کی Internship نہ جانے کم ختم ہوگی اور وہ بہتر کام کرسکے گے۔ حزب اختلاف کی دونوں بڑی پارٹیاں بڑا لمبا عرصہ اقتدار میں گذار چکی ہیں۔ مگر ان کے ہاتھ بھی لتھڑے ہوئے ہیں۔ کیا دوبارہ ان پر بھروسا کرنا مناسب ہوگا؟ عسکری قیادت کو بھی بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ رہ گئی عدلیہ تو وہ نوٹس پہ نوٹس لےکر وکلا برادری کو لہو گرم رکھنے کا بہانہ فراہم کرتی رہتی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں کیس عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں، بہت سے قیدی تو پھانسی کے انتظار میں ہی رحلت فرما گئے ہیں اور بعض پھانسی تو کیا کسی بھی سزا کے اہل ہی نہیں تھے۔
ہمارا سیاسی نظام بھی صرف منتخب نمائندوں کو ہی حکومت میں آنے کی اجازت دیتا ہے بھلے کارکردگی صفر ہو۔ اب رہ گئے کام کرنے والے وہ کف افسوس ہی ملتے رہ جاتے ہیں یا پھر معاون خصوصی بن کر فن الزام تراشی میں ڈاکٹریٹ کہ ڈگری لے لیتے ہیں۔ اب وزیر اعظم صاحب کی بین الاقوامی ساکھ اور 92 کا عالمی کپ کب تک ان کی ساکھ بچانے گا؟ ملک کو صرف کینسر ہسپتال ہی نہیں بیروزگاری کا علاج بھی چاہیے جس میں موجودہ حکومت ناکام نظر آتی ہے۔
اب شاید کسی چوتھی قوت کو آزمانا ہی بہتر ہوگا کیونکہ اب Deliverablesکی ضرورت ہے۔ Electablesصرف پارٹیاں تبدیل کرتے ہیں، تبدیلی نہیں لاتے۔