Bare Khel Ke Khilari
بڑے کھیل کے کھلاڑی
صاحبو اکثر خان صاحب کی تقاریر میں ایک بات کا بار بار اظہار نظر آتا تھا جب وہ حکومت میں تھے اور اب بھی نظر آتا ہے وہ ہیں ان کے بڑے مقاصد، ان کے رفقاء بھی عوام کو یہی مشورہ دیتے تھے کہ مہنگائی، آلو، ٹماٹر، پیاز وغیرہ پر خان صاحب اپنا وقت کیوں ضائع کریں؟ ان کی وسیع نظر آسمانوں پر ہے۔ ان کے اوپر پوری امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے، جس کو سادہ لوح عوام سمجھ نہیں پا رہی۔ وہ عوام کو کسی کے آگے جھکنے نہیں دینا چاہتے۔ اب عوام بیچاری بوجہ مہنگائی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئی۔ خودار قومیں ایسے نہیں بنتیں۔
کسی کے آگے جھکتی نہیں ہیں بس بچے پیدا کرنے امریکہ چلی جاتی ہیں۔
یہ باتیں سن کر مجھے دوسری جنگ عظیم میں امریکہ بہادر کے دو ایٹم بم جو ملک جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر داغے گئے تھے جس کے بعد جاپان نے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ حالانکہ ان کے سپہ سالار لڑنے کو تیار تھے۔ شہنشاہ کی ہتھیار بندی کی تاریخی وجہ اس کے اپنے الفاظ میں "میں اپنے قوم کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا"۔ صرف تیس برس سے بھی کم عرصے میں جاپانیوں نے اپنے ملک میں بنے ٹیلی فون تک واشنگٹن کے کمرہ صدارت تک پہنچا دیے جسے وہ اپنی جیت گردانتے ہیں۔
اب ان بڑا کام کرنے والوں کو کوئی سمجھائے کہ پہلے اپنے لوگوں کے بنیادی مسائل حل کرو انہیں روٹی، کپڑا، مکان، صحت و تعلیم کی فکر سے آزاد کرو، پھر قوم بڑے کام کرے گی۔ پاکستانی قوم کے بڑے مسائل جن کے حل کے لیے وہ ہر حکمران کی طرف دیکھ رہے ہیں، پینے کا صاف پانی، روٹی، کپڑا مکان، یکساں تعلیمی نظام، صحت مند ماحول، آمدورفت کی جدید سہولیات، یہ عام اور یقیناََ چھوٹے مسائل ہیں پر کسی قوم کا کردار بنانے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔
اور یقیناََ کوئی بھی عام فہم لیڈر اگر قوم و ملک کے ساتھ مخلص ہو تو یہ کام کر سکتا ہے، اس کے لیے کسی عالمی معیار کے رہنما کی ضرورت نہیں۔
پہلے بنیاد صحیح کریں عمارت خود مضبوط ہو جائے گی۔