Aye Rooh e Quaid
اے روح قائد
اے قائد چودہ اگست آئی اور آکر چلی گئی، اور ہم نے ملی نغمے خوب جی لگا کر گائے، خاص طور پر اے روح قائد آج کے دن ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں، یہ وعدہ گذشتہ پچھتر برسوں سے کر رہے ہیں، مولانا طارق جمیل نے چند برس قبل ایک بیان میں فرمایا تھا، کہ انہوں ایک خواب جو انہوں نے غالبا چالیس برس قبل دیکھا تھا۔ جس میں انہوں نے دیکھا کہ قائد آپ کو قبر میں بہت ایصال ثواب ہو رہا ہے۔
اور آپ بہت مزے میں ہیں، ہونا بھی چاہئے آپ نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے جو کچھ کیا، اسکی نظیر نہیں ملتی۔ پر آجکل آپ پاکستان کے حالات پر کیا سوچ رہے ہیں۔ آپ نے جو دیس بنایا تھا، اسکو ویسا ہی پایا، ہم نے آپکی یادگاری تصویر کو دفتروں کی دیواروں پر سجا دیا اور کرنسی نوٹوں پر بھی، پر قائد ان نوٹوں کا بھرم بھی بس آپکی تصویر کی وجہ سے ہے ورنہ پوری قوم۔
جس کو آپ نے فرنگیوں سے چھٹکارا دلایا انہی کے دیس کے کرنسی نوٹوں کے پیچھے بھاگتی ہے۔ اور اب عوام کی اکثریت یہی سوچ رہی ہے کے تاج برطانیہ کا یا اسکے کسی حواری ملک کی شہریت کا حلف اٹھا لیں، ملکی شہریت کے قوانین کے ماہرین بھی اس کام میں پیش پیش ہیں اور آپکی تصویر والے کرنسی نوٹوں کے بیگ بھر بھر کہ وصول کر رہے اور ہر فرنگی دیسوں میں چین کی بنسی بجا رہے ہیں۔
قائد ہم کبھی میثاق جمہوریت تو کبھی میثاق معیشت کی بات کرتے ہیں، پر آج تک کسی میثاق پر عمل درآمد نہیں کر پائے۔ قائد انور مقصود صاحب کی زبانی پتہ چلا کہ آپ چودہ اگست کو آدھی چھٹی والا قومی دن سمجھ رہے ہیں، قائد وجہ ہمیں سمجھ آگئی، پر آپ خدا سے سفارش کریں کہ ہم ہمیشہ یونہی چودہ اگست مناتے رہیں۔ اے قائد آج کل اللہ کی رحمت یعنی بارش زور وشور سے پورے ملک میں برس رہی ہے۔
خاص کر آپکے منتخب کردہ سابقہ دارالخلافہ شہر کراچی میں، مگر یہ شہر اب عظیم شہر سے زیادہ قدیم شہر بنتا جا رہا ہے۔ دارالخلافہ والی حیثیت تو کبھی کی ختم ہو گئ پر صاحب اب بھی کماو پوت ہے۔ پر باران رحمت کا بوجھ بہت زیادہ برداشت نہیں کر رپا رہا، جگہ جگہ سے ابل رہا ہے، عام آدمی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تھک گیا کیا کھائے اور کیا پہنے، سب انہی دعووں میں لگے ہیں۔
ہم اچھے اور سچے باقی سب عقل کے کچے، مسئلہ شاید صرف اتنے ہے، ہم اپنے اپنے دائروں میں رہکر ملک کے لیےکچھ کرنا چاہتے ہیں پر نجانے کیوں بٹ جاتے ہیں، سب ملکر ایک دائرے میں نہیں رہتے، جس دن ایسا ہو گیا اس دن آپ کو بہت فخر ہو گا۔ اور ہاں قائد آپکے حریف نہرو اور گاندھی جی کا کیا حال احوال ہے۔ ہمارے حالت دیکھ کر آپ کو تنگ تو نہیں کرتے، اگر ایسا کرتے ہیں، تو پھر ہم انکو ایسا نہیں کرنے دینگے۔
ابھی اس ملک کی مٹی میں ان شہیدوں کا لہو باقی ہے۔ جنہوں نے آزادی حاصل کی اور جنہوں نے اس سرزمین کی حفاظت کی۔ ہم آپ کے خواب کو اس تحفہ نایاب کو پھر پوری آب تاب کے ساتھ اسکی پیروں پر کھڑا کرینگے۔ یوں دی ہمیں آزادی کے دنیا ہوئی حیراں کہ برعکس کسی کو یہ کہنے کا موقع نہیں دینگے کیوں دی ہمیں آزادی کی دنیا ہوئی حیراں۔