Atom Bomb Se Frying Pan Tak
ایٹمی بم سے فرائنگ پین تک
صاحبو گزشتہ پچھتر برسوں میں مملکت خداداد کے باسیوں نے کیا کیا نہیں دیکھا۔ مارشل لاء دیکھے، جمہوری حکومتیں دیکھیں، کسی رانی کے ساتھ جنرل کا لقب بھی دیکھا۔ ملک دولخت ہوتے دیکھا، جنگیں دیکھیں۔ کھیل کے میدانوں میں جھنڈے گاڑے، پھر ان ہی میدانوں میں دھول اڑتے دیکھی، ہنر مند ایسے دیکھے گائیں تو کانوں میں رس گھول دیں، لکھیں تو رخ انور پر مسکراہٹیں بکھیر دیں۔ شاعری کریں تو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیں۔
فنون لطیفہ سے ہٹ کر ہر خاص و عام طبقے میں ایک سے بڑھ کر ایک ہنر مند پیدا کیا، ایک سے ایک قابل مکینک تو ایک سے بڑھ کر ایک انجینئر۔ طب و حکمت میں ایک سے بڑھ کر ایک نام، طبیب ایسے کہ ٹوٹے ہاتھ پیر جوڑ دیں، دل کی ہر رگ ٹھیک کر دیں۔ علم بانٹنے پر آئیں تو استادوں کے استاد بن جائیں۔ عسکری قوت کے بات کریں تو نمبر ایک بن جائیں، پہلی مسلم ایٹمی طاقت کہلائیں، پر شاید کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ ایٹمی قوت پر کوئی ہم سے مرعوب نہیں ہوتا، ایک قوت سے کئی قوتوں میں بٹتے چلے گئے، اپنے گھر کے مسئلوں میں ہی الجھتے چلے گئے، باہر سے آئے مہمان بھی ہم میں گھستے چلے گئے اور اپنا حق جتانے لگے۔
جو مل بانٹ کر رہتے تھے مل بانٹ کر کھانے لگے۔ سب اپنے اپنے کارنامے بتانے لگے، کبھی جرمنی جاپان کی سرحد ملانے لگے تو کبھی زیادہ بارش اور زیادہ پانی کا فلسفہ بتانے لگے، ہر جگہ بس مانگنے جانے لگے، یہ چور ہے وہ ڈاکو ہے ہر ایک کو یہ سمجھانے لگے، ہر کھیت کھلیان میں گھر بنانے لگے، پر اپنا دیس چھوڑ کر سب پرائے دیس جانے لگے، بجلی، پانی، آٹا، سبزی سب سے بس پیسہ بنانے لگے۔ آج جھوٹ کو ہم نے اتنا معتبر کر دیا، کہ سچ سے گھبرانے لگے ہیں۔ ہم سب کہ اپنے سیاسی دیوتا ہیں جن سے امید لگائے بیٹھے ہیں، دل میں طوفاں سجائے بیٹھے ہیں۔ جس دن زندگی کی بجلی چلی گئی اندھیرا چھا جائیگا۔
غیر دانشمندانہ فیصلوں نے یہ صورتحال کر چھوڑی ہے کہ کوئی بیانیہ بھی کارگر ثابت نہیں ہو رہا، انصاف کے ترازو پر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، پر تاریخ پہ تاریخ ہی مل رہی ہے اور ایٹمی قوت فرائنگ پان سے کپڑے استری کرنا سیکھ رہی ہے۔