1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Shariq Waqar/
  4. Aeen o Qanoon

Aeen o Qanoon

آئین و قانون

صاحبو ملک میں قانون کی بالادستی ہوگی آئین مقدس کا بول بالا ہوگا، آزادی کے بعد سے اہلیان پاکستان اسی امید پر مملکت خداد میں جی رہے ہیں اور جنکی امید ٹوٹ رہی ہے وہ ہجرت کر رہے ہیں، آئین مقدس ہے ہمیں آئین کے متولی اسکی آگاہی دیتے رہے ہیں، رہ گیا قانون کا بول بالا تو پہلے یہ یاد کرا دو کہ قانون اندھا ہوتا ہے، اور آجکل 140 ممالک میں 132 ویں درجے پر براجمان ہے، اور درجہ آخر تک پہنچنے کی کوششیں جاری و ساری ہیں، دیکھیں نیا سال کونسا انقلاب لاتا ہے۔

چھوٹی عدالت ایک فیصلہ سناتی ہے بڑی عدالت اسے کالعدم قرار دیتی ہے اور عدالت عالیہ اپنا فیصلہ محفوظ کر لیتی ہے تاکہ قانونی وقار مجروح نہ ہو۔ صاحب ہر ادارے میں کسی فیصلے کی ذمہ داری لینے سے سبھی گھبرا رہے ہوتے اور کوشش یہی کرتے کہ غلطی کا ملبہ نیچے والوں پر ڈال دیں، راقم کو سرکاری، نجی اور غیر ملکی ہر طرح کے اداروں میں کام کرنے کے مواقع ملے، تجربات تو بہت سے قابل ذکر ہیں مگر شاید قابل تحریر نہیں۔

ایک فیصلے میں آسانی کے لیے جو آگے نہیں بڑھ رہا تھا اور کئی ماہ سے اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ پا رہا تھا راقم نے اس پر اپنا تجزیہ اور رائے دی اور فائل مطلوبہ افسر تک بھجوا دی۔ چھ مہینے تک تو اس جدید تیکنکی دور میں اس فائل کے کھو جانے کا ڈھنڈورا پٹتا رہا، کبھی لاہور کبھی اسلام آباد تو کبھی کراچی کے دفاتر میں چھان بین ہوتی رہی، عقدہ کھلا کہ فائل کھو جانا اور پھر اچانک مل جانا اس ادارے کا روزمرہ کا معمول ہے، مطلوبہ فائل بالآخر دریافت ہوئی اور ایک اور بڑے افسر کو راقم کے تجزیہ پر رائے دینے کے لیے بھجوا دی گئی۔

انہوں ایک کنسلٹنٹ سے اس پر راۓ مانگی اور وہ مزید تحقیق میں لگ گیا نتیجہ کچھ نہ نکلا پھر اس فائل پر راے زنی کے لیے ایک اور تجربہ کار افسر کو چنا گیا جنکو اس ادارے میں کام کرتے ہوئے پینتیس سال ہو گئے تھے اور اس بات کا گلہ بھی تھا راقم اور انکے ایک اور ساتھی کو جس سیٹ پر انکی تجربہ کار شخصیت کا حق تھا کل کے بچوں کو دے دی گئی، بہرحال انکا حق انکو ریٹائرمنٹ کے آخری سال میں مل ہی گیا، کل کے بچے گئے بیرون ملک تیل لینے، خیر صاحب فائل پر تجربات کی بنیاد پر صاحب نے تبصرہ کیا جو بڑا دلچسپ تھا۔

1۔ پہلے افسر نے فلاں تاریخ کو فائل فلاں افسر کو بھیجی۔

2۔ فلاں افسر نے فلاں تاریخ کو فائل فلاں افسر کو بھیج دی۔

3۔ فلاں افسر نے مزید رائے کے لیے فلانے کنسلٹنٹ کو بھیجی نتیجہ نہ نکلنے پر فلاں تاریخ کو مجھے یعنی پینتیس سالہ تجربہ کار افسر کو بھجوا دی۔

4۔ بالآخر وہ فائل پہلے افسر کو بنا کسی تبصرے کے واپس بھیج دی گئی۔

یعنی جو بولے وہ کنڈی کھولے۔

بالآخر جیت تجربہ کی ہوئی اور کنڈی کھل گئی اور صاحب کی ترقی بھی ہوگئی، تجزیہ گیا تیل لینے۔

صاحب قانون و آئین لوگوں میں نظم و ضبط اور انصاف کے لیے بنائے جاتے ہیں پر اکثر قانونی پیچیدگیاں کام کے رستے کی رکاوٹ بنتی ہیں شاید Justice delayed Justice denied کا مقولہ بھی سامنے آ جاتا ہے اور عوامی بہبود کا منصوبہ بھی غیر ضروری لاگت کا شکار ہو جاتا ہے، کسی ادارے کے صرف نام کی تبدیلی میں اتنی اگر مگر دیکھنے میں آتی ہے کہ بندہ کانوں کو ہاتھ لگا لے۔ بہرحال ہماری پچھتر سالہ تاریخ یہی ہے بس قرض کی مہ کشی کر رہے ہیں اور ڈیفالٹ سے ڈرتے ہیں۔

Check Also

Hum Ye Kitab Kyun Parhen?

By Rauf Klasra