Tehzeebi Naqsh Gari
تہذیبی نقش گری
کسی بھی پرامن اور خوبصورت معاشرہ کی تشکیل کے لیئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی ثقافت کا احترام کیا جائے، ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کیا جائے۔ انسانی احترام اور برداشت سے زیادہ قوت روئے زمین کی کسی شیطانی طاقت کے پاس نہیں جو آپ کو دوبارہ باہم دست و گریباں کرسکے۔
شعوری سطح پر دیکھا جائے تو عظیم ادبی سماجی امتیاز یہ ہے کہ فکری شعوری اور تخلیقی سطح سے بھرپور ہرنسل نو اپنے اپنے شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ اپنی ذہنی آسودگی کے لئے ادب سے رجوع کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں اس نوع کی تربیت کا عظیم فقدان دیکھنے کو ملتا ہے جہاں فنون لطیفہ فلسفہ موسیقی رقص مصوری سے مبرا معاشرہ تشکیل دے دیا گیا ہے جو خالی الذہن فکرو تخلیق سے عاری ہے۔
خیال کی آبرو الفاظ کے تہذیبی چناؤ کے ذریعے ممکن ہے۔ خان لیاقت علی خان کو کم کم لوگوں نے سنا ہوگا۔ لطیف اور خوبصورت گفتگو کرتے تھے۔ تہذیبی اقدار انکی گفتگو اور لباس سے جھلکتا تھا۔ ان کے بعد تہذیبی نقش گری نا دیکھنے کو ملی نا سننے کو۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان۔ یحیی خان۔ ذولفقار علی بھٹو ضیا الحق جنرل پرویزمشرف تحکمانہ لہجے میں گفتگو کرتے تھے۔ نوازشریف دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں مگر بادشاہت انکا مزاج ہے۔
ایک روزایک سیاسی رہنما پاگل خانے تشریف لے گئے۔ کسی پاگل نے انھیں دیکھ کر پوچھا "آپ کون ہیں" اس سیاسی رہنما کے چیلے نے اس پاگل کو جواب دیا کہ یہ مستقبل کے پرائم منسٹر پاکستان ہیں۔۔ وہ پاگل یہ سنکر خوب ہنسا۔ پھر کہنے لگا کوئی بات نہیں "ٹھیک ہوجائیں گے جب میں آیا تھا تو میں بھی یہ ہی کہتا تھا"۔
تو شعور کی سطح سے لاشعور کی سطح تک اس سفر میں انسان کی ذہنی صحت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس میں زبان کا تہذیبی ثقافتی لطیف رنگ اسے قوموں میں ہردلعزیز بناتا ہے۔ لیاقت علی خان پاکستانی نصاب میں اپنا ایک ہم مقام رکھتے ہیں۔ باقی رفتہ رفتہ ہٹادیئے گئے ہیں۔
اسٹیٹ کو کامیابی سے چلانے کا جادو اس تجربے کی روح کے اندر ہے جو تہذیبی اقدار کی نقش گری کرتے ہیں۔ جھوٹ نہیں بولتے۔ بہتان نہیں کستے۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں اخلاقیات اور خاموشی کی زبان کے معیارات کا ظاہری اور باطنی مینارہ زمیں بوس ہوچکا ہے۔ ہر تمدن و تہذیب کو ضرورت رہتی ہے کہ اسکا اظہار زندہ رہے۔
ہماری اگلی نسل سوال کرتی ہے کہ اسٹیٹ کا ہیڈ ایسا بدتمیز اور گالی باز ہوگا تو میں کہتا ہوں کہ ظلم انھوں نے کیا ہے جنھوں نے بہت سے غلط سر بہت سے غلط جسموں پر لگادیئے ہیں۔