Mutnaza Baldiyati Intikhabat
متنازعہ بلدیاتی انتخابات
پاکستان میں صاف شفاف انتخابات کا انعقاد عوام کی ایک دیرینہ خواہش بن کر رہ گئی ہے۔ انیس سو اکہتر کے انتخابات کے بعد کوئی بھی انتخاب عوامی امنگوں، اور خواہشات کے عین مطابق صاف و شفاف نہیں ہوئے۔ اسی طرح پاکستانی عوام انتخابات میں سیاسی عسکری اور بیرونی اثرو رسوخ یا مداخلت کو نا دیکھنے کے بھی خواہش مند رہے ہیں۔
سندھ کی سیاسی فضا میں موجودہ بلدیاتی انتخابات متنازعہ حیشیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ جسکا اثر کراچی کی معاشی اور سماجی سرگرمیوں پر اثر انداز ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اس تکلیف دہ منظر نامے میں موجودہ حکومت کی بدترین دھاندلی، الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہٹ دھرمی، اور سندھ ایکٹ دس اعشاریہ ایک کی کھلم کھلا خلاف ورزی، جیسے غیر آئینی غیر قانونی اقدامات نے اداروں کو متنازعہ تو بنادیا ہے ساتھ ساتھ انکی کریڈیبلٹی بھی شدید متاثر ہورہی ہے۔
خاص طور پر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کے واضح بائیکاٹ کے باعث اور ٹرن اوور انتہائی کم ہونے کی وجہ سے بھی مشکوک ہوگئے ہیں۔ دیگر یہ کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے سندھ حکومت کا نوٹیفیکشن واپس لینے کے باوجود بھی الیکشن کمیشن نے انتخابات منعقد ہونے کی تاریخ کو آگے نہیں بڑھایا۔ اور ایم کیوایم کے اعتراضات کو یکسر مسترد کردیا۔ جبکہ سپریم کورٹ نے ایم کیو ایم کی درخواست کو بالکل درست تسلیم کیا تھا اور اسے ہدایت جاری کی تھی کہ وہ نوٹیفیکشن کی واپسی کے لیئے حکومت سندھ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کرے۔ اور ایم کیو ایم نے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات پر عمل کرتے ہوئے حکومت سندھ سے رجوع کیا۔
اس انتخابات سے پہلے متحدہ قومی مومینٹ کا واضح موقف تھا کہ مردم شماری دوبارہ کرائی جائے اور مہاجر آبادی والے علاقوں میں یونین کونسلز کی تعداد جو کم کی گئی ہے وہ آبادی کے تناسب سے بڑھائی جائے۔ یعنی انتخابی حلقہ بندیاں درست کیجائیں۔ جوکہ نا ہوسکیں جس کے باعث ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنا پڑا۔
دوسری طرف جماعت اسلامی کا یہ استدلال کے ان کی سیٹوں کو کم کرنے کے لیئے پاکستان پیپلز پارٹی جو سندھ میں حکمراں جماعت بھی ہے اس نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کی ہے۔ جسکے ثبوت جماعت اسلامی نے پیش بھی کئے ہیں۔
پی ٹی آئی نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی پر بڑے پیمانے پر دھاندلی کا الزام عائد کیا ہے۔ مجموعی سطح پر اس حوالے سے صوبے اور خاص طور پر کراچی کی صورتحال کشیدہ ہے اور عوام کے ایک بڑے حلقہ میں خدشات اور تحفظات اس الیکشن کے حوالے سے پائے جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مقتدرہ حلقے اور ادارے اس جعلی انتخابات کا ازسر نو جائزہ لیکر عوامی خدشات اور تحفظات کو ہر ممکنہ طور پر دور کرینگے۔