Dr. Khalid Sohail
ڈاکٹر خالد سہیل
مذہب اور جنس کی بنیاد پر طاقت کی سیاست ہمیشہ سے انسان کے چال چلن اور بحیثیت مجموعی انسانی معاشروں کے رسم و رواج کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اب جب کہ انسان زیادہ آزادی کی طرف قدم بڑھا رہا ہے تو مذہب اور جنس کی بنیادیں نئے ڈھنگ اختیار کر رہی ہیں اور طاقت کی سیاست بھی نئے نئے انداز میں ان دونوں کو استعمال کر رہی ہے۔
طاقت کبھی گولا بارود بن کر آسمان سے برستی ہے اور کبھی سرمائے کو ہتھیار بنا کر انسان کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتی ہے۔ صدیوں پرانی افواہ سازی کی بلائیں اپنے پنجے گاڑیں یا جدید دور میں سوشل میڈیا کے ہتھیار استعمال ہوں، ہر طریقہ میں مذہب اور سیکس کی بساط پر ہی یہ کھیل کھیلا جاتا ہے۔
کچھ دن پہلے ہمارے ہاں انسانی نفسیات کے عظیم استاد اور نٹ کھٹ کالم نگار ڈاکٹر خالد سہیل تشریف لائے۔ ان کی شخصیت کو چند لفظوں میں سمیٹتے ہوئے استاد محترم وجاہت مسعود نے فرمایا کہ مذہب، شادی اور جنگ تینوں کے معاملے میں وہ مستقبل کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ جنگ جو کہ طاقت کی سیاست کا سب سے بھیانک چہرہ ہے۔ شادی جو کہ روایتی ریکھاؤں کو توڑ کر نئی سے نئی شکلیں اختیار کر رہی ہے اور صدیوں پرانے مذاہب جو موجودہ ادوار کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور اب اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے انسانیت کو مزید مشکل میں ڈال رہے ہیں۔
ڈاکٹر خالد سہیل محبت کو جنگ کا توڑ قرار دیتے ہیں۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں جتنے انسان ہیں اتنے ہی سچ ہیں تو جنگ کی بنیاد کو ہی ختم کر دیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے سچ کو قبول کرنا ہی جنگ کا توڑ ہے۔ اپنے سچ کو کسی پر ٹھونسنے کے وہ سخت خلاف ہیں۔ یاد رکھیں ایک وقت کا سچ دوسرے وقت کا جھوٹ ہو سکتا ہے۔ ایک قوم کا سچ اس کے لیے عبادت کا درجہ رکھتا ہے تو دوسری قوم کے لیے وہی سچ گناہ کا باعث بن سکتا ہے۔ ویسے بھی سچ تو خود فانی ہے اس کی بنیاد پر کوئی عمارت کیسے کھڑی کی جا سکتی ہے۔
اس لیے سب کے سچ کا احترام کرنا پڑے گا۔
ڈاکٹر خالد سہیل انسانی معاشروں کی ان تین حقیقتوں سے سمجھ بوجھ کر چھیڑ خانی کر رہے ہیں۔ انسانی نفسیات میں جنس کے کردار کو بیان کرنے کے لیے خالد سہیل کا ایک بیان ہی کافی ہے جو انہوں نے کچھ سال پہلے میرے ایک افسانے پر کمنٹ کرتے وقت لکھا تھا کہ انسانی جسم میں سب سے بڑا جنسی عضو دماغ ہے۔
اس ایک جملے نے ان کی نفسیات دانی کو بیان کر دیا۔ اس معاملہ میں بھی انسان جو کچھ کرتا ہے اس کا دار و مدار سوچ اور خیالات پر ہوتا ہے۔
ازل سے جنسی خواہش کو حدود کے اندر لانا انسانی کی فطرت رہی ہے۔ لیکن بدلتے ہوئے زمانے، بدلتی ہوئی ضروریات اور بدلتی ہوئی مشکلات کو سامنے رکھ کر ان حدود کو بدلنا انسان کی خواہش ہی نہیں ضرورت بھی ہے۔ انسان نے مختلف ادوار میں جنسی تعلقات میں مختلف رویے اپنائے جو کہ زنا بالجبر، ظلم و زیادتی کے حرم اور پولی گیمی سے لے کر تجرد تک محیط ہیں۔ ان میں تجرد کو انسانی عظمت کی معراج کہا جاتا رہا ہے۔
تجرد یسوع کی مسیحیت کا اہم جزو ہے۔ یہ بدھ مت اور ہندو مت کی طرح کئی مذاہب اور معاشروں میں سب سے افضل فعل قرار دیا جاتا ہے، شاہ جی اپنے کلام میں کئی جگہ مجرد زندگی کو انسان کا اعلی اخلاق بتاتے ہیں۔
ست جرم کے ہمیں فقیر جوگی
نہیں نال جہان دے سیر میاں
اساں سہلیاں کھپراں نال ورتن
بھیکھ کھاء کے ہونا وہیر میاں
جتی ستی ہٹھی تپی ناتھ پورے
ست جنم کے گہر گھمبھیر میاں
سات جنم سے ہم نے رسم فقیری اپنائی ہوئی ہے ہمیں جہاں سے کوئی غرض نہیں۔ ہمارے سر کی لمبی زلفیں (پٹے، سہلیاں) اور ہمارے ہاتھ میں بھیک مانگنے والا برتن بتاتا ہے کہ ہمیں بناؤ سنگھار کی کوئی ضرورت نہیں، ہمیں لذت کام و دہن کی خواہش نہیں، ہم تو بھوک کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ ہم اپنی نسوانی خواہشات پر مکمل طور پر قابو پا چکے ہیں ہم مکمل ناتھ ہیں سات جنم سے سنجیدہ و پروقار مجرد زندگی گزار رہے ہیں۔
ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک اور راستہ بھی ہے، ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔۔
تو مجھے چھوڑ کے ٹھکرا کے بھی جا سکتی ہے
تیرے ہاتھ میں میرے ہاتھ ہیں زنجیر نہیں
ڈاکٹر خالد سہیل اس سے بھی آگے کی بات کرتے ہیں۔ ہم انسانوں کی طرح مل جل کر رہیں گے اور اگر یہ ممکن نہیں تو تم پیار سے مجھے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھی جا سکتی ہو، یہ تمہارا حق ہے۔ ہماری دوستی پیار ویسا ہی رہے گا۔ ہم ایک دوسرے کی ویسے ہی عزت کرتے رہیں گے۔ ہمارے درمیان مذہب، کاروبار، رنگ و نسل کی کوئی سانجھ نہیں تو بھی دوستی ہو سکتی ہے اور اگر بچھڑنا ہے تو بھی اخلاقیات یا رسم و رواج ہمارے راستے کی دیوار نہیں۔