Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Ye Waqt Bhi Guzar Jaye Ga

Ye Waqt Bhi Guzar Jaye Ga

یہ وقت بھی گزر جائے گا

جیسے ہی گاڑی رکتی ہے سیلاب زدگان ایسے گھیر لیتے ہیں جیسے ہمارے ہاں مجمع کسی مذہبی گستاخ کو گھیرتا ہے۔ کئی بار میں ہجوم سے اپنی جان بچا کر نکلا ہوں۔ ان کی بھی مجبوری کہ ہر شخص کو مسیحا سمجھتے ہیں۔ یہ جو آگے آگے مسٹنڈے سیلاب زدگان ہوتے ہیں ناں ان کی اکثریت راشن سمیت بہت کچھ ذخیرہ کر چکی ہوتی ہے مگر نظر کی بھوک کہاں مرتی ہے۔ پیشہ ور طبقہ بھی فعال ہو چکا ہے وہ غریبوں کو آگے آنے ہی نہیں دیتا۔

ایسے ہی مجمع میں گھِرا میں ایک جگہ بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا۔ میری نظر ایک شخص پر پڑی جو سب سے دور اپنے ننھے بچے کو گود میں لیے تنہا کھڑا ہوا تھا۔ اس کی صورت سے لاچارگی ٹپک رہی تھی۔ وہ اس لوٹ مار والی بھیڑ کا حصہ نہیں بنا تھا۔ مجھے پہلی نظر میں ہی وہ غریب مستحق بھی لگا اور اس کی عزتِ نفس کی وجہ سے اس پر پیار بھی آیا۔ میں نے اسے بھیڑ سے الگ ہونے کا اشارہ دیا مگر بھیڑ کہاں جان چھوڑتی؟

مجمع ہمارے پیچھے چلنے لگا۔ صورتحال بھانپ کر میں نے اس شخص کو کہا کہ گاڑی میں بیٹھو۔ گاڑی نکالی اور بھیڑ سے بچنے کو چند میٹرز آگے چلا گیا۔ اب بھیڑ پیچھے رہ گئی تھی۔ میں نے اس کی ہتھیلی میں کچھ رقم تھمائی اور کہا "جو چاہئیے ہو لے لینا۔ قریب ہی دکانیں ہیں"۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر رونے لگ گیا۔ بیچارہ بہت رویا۔ میں نے اسے تسلی دی، بہت دلجوئی کی، اسے چپ کروانے کو اور کیا کر سکتا تھا۔

بلآخر کچھ سنبھلا تو شکریہ ادا کرنے لگا۔ میں نے کہا شکریہ کی کوئی بات نہیں اور حوصلہ رکھو یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ سُن کر بولا "صاحب جی ریسکیو والے مجھے اور میرے بیوی بچوں کو کشتی پر بٹھا کر تو نکال لائے مگر میری ایک ہی اونٹنی تھی وہ ڈوب گئی۔ اس کو کشتی پر نہیں چڑھایا جا سکتا تھا۔ میرا دو کمروں کا مکان مٹی کی دیواروں سے بنا ہوا ہے۔ وہ تو میں دوبارہ گارے سے خود بنا لوں گا مگر میری اونٹنی تو ڈوب گئی وہ واپس نہیں آئے گی"۔

یہ سُن کر مجھے چپ لگ گئی۔ اب کیا کہا جا سکتا تھا۔ اس کا واحد اثاثہ اونٹنی تھی اور اس کی ساری محبت یا اٹیچمنٹ اس کے ساتھ تھی۔ دل بوجھل ہو چلا تو میں نے وہاں سے اسے تسلی دے کر رخصت لی۔ سارا دن بہت بے بسی کی زندہ داستانیں دیکھتا سنتا رہا۔ شام ہونے کو آئی۔ فاضل پور کے قریب ایک خیمے میں پہنچا۔ خیمے کے سربراہ مرد کی ایک ننھی بچی تھی جس نے پلاسٹک کی گڑیا تھام رکھی تھی اور وہ مسلسل روتی جاتی تھی۔ اس کے باپ سے پوچھا کہ کیا یہ بیمار ہے؟

مجھے لگا وبائی مرض کا شکار ہو تو کسی قریبی ریلیف کیمپ میں ڈاکٹر کو دکھا لوں۔ اس کا باپ بولا "بیمار نہیں ہے۔ اصل میں اس کی ماں نے اس کے لیے خود کپڑے میں روئی بھر کے گڑیا بنائی تھی۔ وہ گڑیا ساتھ نہیں آ سکی۔ یہ تو بہت روتی تھی۔ آپ کی طرح کا ایک باؤ بندہ آیا۔ اس نے ہمیں راشن دیا اور جب اسے بچی کے رونے کے سبب گڑیا کا معلوم ہوا تو وہ اگلے دن دوسری بار آیا اور یہ جو گڑیا اس کے ہاتھ میں وہ اسے دے گیا۔ مگر یہ جب کسی اجنبی کو خیمے کے پاس دیکھتی ہے تو کہتی ہے کہ اسے وہی اپنی گڑیا چاہئیے۔ "

میں نے بچی کو ہنسانے کو کہا "بیٹا وہ گڑیا تو دریا سے ہوتی ہوئی اب تک سمندر میں پہنچ چکی ہو گی۔ یہ جو تمہارے پاس ہے یہ اچھی والی ہے"۔ بچی نے سن کر جواب دیا "میری گڑیا مجھ سے باتیں کرتی تھی۔ یہ باتیں نہیں کرتی"۔ اب اسے کون سمجھاتا کہ بیٹا گڑیا باتیں نہیں کرتی وہ چونکہ اماں نے بنائی تھی اور تمہاری واحد سہیلی وہی تھی اس لیے تم کو لگتا تھا کہ وہ تم سے باتیں کرتی ہے۔

خیمے سے نکلتے دل پر پھر بوجھ آن پڑا۔

Check Also

Sorry Larki Ki Umar Ziada Hai

By Amer Abbas