1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Ye Dastan Lakhon Mujh Jaison Ki Hai

Ye Dastan Lakhon Mujh Jaison Ki Hai

یہ داستان لاکھوں مجھ جیسوں کی ہے

یہ داستان صرف میری نہیں لاکھوں مجھ جیسوں کی ہے۔ میں نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ انتہائی گرا ہوا معاشرہ تھا۔ گلی محلوں، چوکوں چوراہوں اور تھڑوں پر گالم گلوچ گفتگو معمول تھی۔ مذہبی نمائندگان بھی اس سے ماورا نہیں تھے۔ اب تو منبر پر بھی سر عام غلیظ گفتگو کا چلن ہے۔ سنہ 2016 میں میری عمر پندرہ سال تھی۔ ایک دن میں ٹی وی پر قائد محترم کی رپیٹ ٹیلی کاسٹ دیکھ کر آبدیدہ ہوگیا۔ میرا دوست کمرے میں داخل ہوا اور مجھے دیکھ کر بولا " اے تو یوتھیا ہے کیا؟" میں نے اپنے دوست کو چپیڑ کرا دی۔ اس دن سے میرا اس کے ساتھ مرنا جینا بند ہے۔

میں نہیں جانتا یوتھیا کیا ہوتا ہے۔ مجھے بس اپنے قائد سے عشق ہے۔ لوگ مجھے اس لقب سے پکارنے لگے۔ مجھے لوگوں سے کوئی گلہ نہیں وہ سب پٹواری ہیں۔ کچھ ہوش سنبھالا تو میرے ضبط کا بندھن ٹوٹنے لگا۔ میرے قائد پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے، میں کیسے چپ رہ سکتا تھا؟ گھر میں ابا جی نے بھی مجھے پر پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔ ان کے بقول میں پڑھائی پر توجہ دینے کی بجائے سیاست پر توجہ دے رہا تھا۔ ایک دن ابو نے ٹی وی بند کرنے کا حکم دے دیا۔ میں نے کہیں پڑھا تھا کہ خدا کا حکم ہے والدین کی سب بات مانو سوائے اس بات کے اگر وہ تم کو کافر ہونے کا حکم دیں تو جھٹلا دو۔ ابو کی اس حرکت سے میں نے دلبرداشتہ ہو کر ان کو پٹواری کہہ دیا۔ میری امی مجھے مارنے کو آگے بڑھیں۔ پٹواری کی ساتھی کیا ہوتی ہے؟ پٹوارن امی۔

شہباز گِل نے مجھے سکھایا تھا کہ جو تمہارے مقابل آئے اس کی ماں بہن ایک کرنا ہی اول جہاد ہے۔ رفتہ رفتہ حالات بدتر ہوتے گئے۔ میرے قائد اور ان کے ساتھیوں پر قیامت خیز ظلم ڈھایا جانے لگا۔ میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی۔ میں سوشل میڈیا پر ڈھیروں اکاؤنٹس بناتا۔ ان کو لاک کرتا اور پھر ہر دوسرے تیسرے بندے کو گالیاں دیتا۔ جب تلک دن میں چالیس پچاس لوگوں کی ماں بہن ایک نہ کر لوں مجھے سکون نہیں ملتا۔ نیند روٹھی رہتی ہے۔

سچ بات یہ ہے کہ میرے قائد آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں سب جاہل لوگ ہیں۔ میں صرف اس کو ہی تعلیم یافتہ مانتا ہوں جو میرے قائد کے ساتھ ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ مجھے لگتا ہے جہاں جہاں دھاندلی ہوئی ہے وہاں وہاں ہمیں ہرایا گیا ہے۔ باقی نتائج زبردست ہیں۔ آج ہی میں ایک جعلی دانشور کو بلاک کرکے آیا ہوں۔ وہ سالا بکواس کر رہا تھا کہ تمام سیاسی قائدین کو ایک میز پر بیٹھ کر میثاق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کسی سمت کو چلنا شروع ہو۔ ایسے لنڈے کے دانشور اپنے آپ کو توپ شے سمجھتے ہیں۔ میرے قائد اور چور ڈکیتوں کے ساتھ بیٹھیں؟ وہ جسے عدالت نے صادق و امین کہہ دیا ہو وہ پٹواریوں اور جیالوں کے ساتھ مذاکرات کرے؟ بُل شٹ

پہلے مجھے یوتھیا کہلوائے جانے پر غصہ آیا کرتا تھا۔ مگر اب وقت کے ساتھ یہ میرے واسطے فخر کی بات ہے۔ میری عمر جوں جوں بڑھ رہی ہے توں توں میں یوتھیا پلس ہو رہا ہوں۔ میری اپنے یوتھیا دوستوں سے درخواست ہے کہ وہ حوصلہ رکھیں۔ الیکشن کمیشن جو مرضی بکواس کرے شہباز گِل کے رزلٹ مطابق ہم دو تہائی اکثریت سے جیت چکے ہیں۔ وزیراعظم ہمارے قائد ہوں گے۔ جیل کی دیواریں ٹوٹنے والی ہیں۔ ابھی کل ہی عادل راجہ صاحب نے خوشخبری دی ہے کہ اڈیالہ جیل میں وی آئی پی پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ وہ باہر آ رہا ہے۔ انشااللہ انشااللہ۔ اللہ الحق ہے۔

Check Also

Aalmi Youm e Azadi e Sahafat

By Gul Bakhshalvi