Women Empowerment Ka Daur Hai
وومن ایمپاورمنٹ کا دور ہے
میں نوٹ کر رہا ہوں کہ کچھ دنوں سے شادی شدہ خواتین کی کثیر تعداد مجھے فالو کر رہی ہے۔ اس سے میں سوچ رہا تھا کہ کہ یقیناً میں جذباتی یا سینٹی مینٹل قسم کی تحاریر لکھ رہا ہوں اور شادی شدہ خواتین کی اکثریت بھی ایسی ہی سینٹی ہوتی ہے۔ اگر کسی سنگل خاتون نے بھی فالو کیا ہے تو اس کا بہت شکریہ اور شدید سنگل نے کیا ہے تو اس کا بہت بہت شکریہ۔
مرد حضرات تو خیر غم روزگار و گھریلو معاملات سے چڑچڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ ہنسنے کے بہانے کی تلاش میں فالو کرتے آئے ہیں فالو کرتے رہیں گے۔ انہی کے دم سے رونقیں ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم جنس مرد ہے۔ یہی جنگوں میں ماری جاتی ہے، یہی سڑکوں پر، یہی گھر میں۔ اور تو اور میں نے عورتوں میں ہارٹ اٹیک کی شرح بھی ان کے مقابلے میں انتہائی کم دیکھی ہے۔
مرد بیچارہ آفس میں باس کے ٹینس کے آگے گیند بنا ہوتا ہے اور گھر میں خاندان اور بیوی کے بیچ فٹبال۔ سیاست، مذہب، معاشرت اور معیشت نے سب سے زیادہ مرد کا خون پسینہ بہایا ہے۔ اس لیے وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی تلاش میں ازل سے سرکرداں ہے۔ پھر وہ خوشی لطیفے سے ملے یا کسی تحریر سے یا کسی دوسری عورت سے، اسے قہقہہ لگانے کا مواد چاہئیے۔
مرد کی یہ صفت بھی قابلِ بیاں ہے کہ وہ دوسرے مرد کا گھر کبھی خراب نہیں کرتا۔ جبکہ عورت کی سب سے بڑی دشمن خود عورت ہوتی ہے۔ وہ سوتن کی شکل میں ہو، گرل فرینڈ کی صورت یا نند و بھاوج و ساس کے پیکر میں۔ یہ اعلیٰ صفت بھی خدا نے صرف مرد کو بخشی کہ وہ بیگم کی سہیلیوں تک کو چاہتا ہے مگر عورت ہے کہ شوہر کے دوستوں سے چڑنے لگتی ہے یا انہیں اچھا نہیں سمجھتی۔
یہ سب میں اس لیے نہیں لکھ رہا کہ میں مرد ہوں تو مرد کی سائیڈ لوں گا۔ جو ٹھیک بات ہے وہ ماننا چاہئیے۔ میں یہ بھی ماننے کو تیار ہوں کہ مرد بھیڑئیے ہوتے ہیں مگر جو ایک فیصد مرد بھیڑئیے نہیں ہوتے ان کی تو قدر کرو۔ عورت کی اس سے بڑی خوبی ہو ہی نہیں سکتی کہ مرد اس کا تختہ مشق ہوتا ہے۔ وہ اسے سنوارنے پر بھی قدرت رکھتی ہے اور بگاڑنے پر بھی۔ ماں کے بگڑے کو بیوی ہی سدھار سکتی ہے یا ماں کے سدھار کو بیوی ہی بگاڑ سکتی ہے۔ عورتیں ہی مرد کی سیٹنگز تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ ماں کی سیٹنگ بیگم رات کو بدل دیتی ہے اور صبح دم اماں پھر اپنی پھونک سے اسے فیکٹری سیٹنگز پر ری سیٹ کر دیتی ہے۔
میرا ایک دوست اپنی بیوی اور ماں سے اتنا تنگ آ چکا ہے کہ ایک روز مجھے کہنے لگا "سوچ رہا ہوں دونوں کو طلاق دے دوں"۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ اماں کو طلاق نہیں ہو سکتی۔ بولا "تو بیوی کو کونسی ہو سکتی ہے؟ اس کے چار بھائی ہیں، ایک وکیل، ایک پولیس آفیسر، ایک انکم ٹیکس میں اور چوتھا ویسے ہی غنڈہ مشہور ہے"۔ اس کی بات سن کر میرا قہقہہ نکلا مگر اس کی آنکھ بھر آئی۔
آج کا دور عورت کا دور ہے۔ وومن ایمپاورمنٹ کا دور ہے۔ عورت کھیل کے میدانوں سے لے کر جہاز اڑانے تک مردوں پہ سبقت لیتی جا رہی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ اک بار لاہور سے ملائیشیا جاتے ہوئے خلیج بنگال کے اوپر جہاز طوفان اور بادلوں میں پھنس گیا تھا۔ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک پنجابی بیٹھا تھا۔ جہاز نے ہچکولے کھانا شروع کر دیئے تو ساتھ بیٹھا پنجابی مسافر زور سے میرا بازو پکڑ کر بولا "یا اللہ مدد کریں پائیلٹ وی بیبی اے"۔ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے جواب دیا "عورت بطور پائیلٹ اتنی خطرناک نہیں جتنا بطور ڈرائیور خطرناک ہے"۔ اور وہی ہوا۔ پائیلٹ نے جہاز کو انتہائی مہارت سے سنبھال لیا۔
کھیلوں کے میدان سے آئے روز خواتین کھلاڑیوں کے کار ہائے نمایاں کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ آج کی عورت اپنا نام و مقام اپنے بل بوتے پر بنا کسی مرد کے سہارے کے بنا رہی ہے۔ ایک بار مجھے ٹی وی چینل پر ویمن کرکٹ میچ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میچ میں کمنٹیٹر بھی خاتون تھیں۔ انہوں نے انتہائی اچھی کمنٹری کرتے ہوئے کہا
"صائمہ کی عمدہ ڈلیوری"
اس دن سے میں قائل ہوگیا کہ عورت اگر چاہے تو کیا نہیں کر سکتی۔