Wo Bhi Kya Daur Tha, Ye Bhi Kya Daur Hai
وہ بھی کیا دور تھا، یہ بھی کیا دور ہے

وہ بھی کیا دور تھا جب چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب ڈیم بنا رہے تھے۔ جسٹس گلزار صاحب کراچی نیسلہ ٹاورگرا رہے تھے۔ جسٹس بندیال خاندانی منصوبہ بندی پر سمپوزیم منعقد کروا رہے تھے۔ نیب کے چیرمین جاوید اقبال سر سے پاؤں تک چمیاں لے رہے تھے۔ خاتون اول ملک ریاض سے قیمتی تحائف وصول رہی تھیں۔ وزیراعظم اپنے بہنوئی کے پلاٹ کا قبضہ چھڑوا رہے تھے۔ فرح گوگی مال غنیمت سمیٹ رہی تھی۔ عثمان بزدار ابھی ٹرینگ لے رہا تھا۔ حریم شاہ وزیراعظم ہاؤس میں سرکاری کرسی پر بیٹھی ہوتی تھی۔ پاپا جونز سکینڈل کو وزیراعظم کلین چِٹ دے دیتے تھے۔ باجوہ صاحب قوم کے ابو لگے ہوئے تھے اور عوام ارطغرل دیکھ رہی تھی۔
یہ بھی کیا دور ہے جسٹس امین الدین صاحب ملٹری کورٹس کو حلال قرار دے رہے ہیں۔ جسٹس مسرت حلالی صاحبہ وکیل کے دلائل سننے پر آمادہ نہیں ہوتیں۔ وزیراعظم صاحب توپ پر چڑھ کے کاندھے تھپتپھاتے ہیں۔ فیلڈ مارشل صاحب سرمایاکاری کا کریڈٹ لے رہے۔ آئین کی کتاب شیلف میں اونچی اور الٹی رکھی ہوئی۔ سکول کالجوں کی بچیاں مریم نواز صاحبہ کی شان میں لکھے ہوئے قصیدے پڑھ رہیں۔ نوازشریف صاحب کبوتر اڑا کے فارغ گھوم رہے۔ صدر زرداری صاحب بیٹے کو اگلا وزیراعظم بنا رہے۔ ہر ادارے کے سر پر فوجی ٹوپی نظر آ رہی اور عوام ابھی بھی ارطغرل کے گھوڑے لگی ہوئی۔
میرے سمیت ہر باشعور پاکستانی کی یہ خواہش ہے کہ مرنے سے قبل اسے وہ ریاست دیکھنا نصیب ہو جائے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی آئین بھی ہوتا ہے۔ تمام فنکشنریز اس کے پابند ہوتے ہیں۔ اس آئین کے تحت ادارے تشکیل پاتے ہیں اور اپنے اپنے مقرر کردہ دائروں میں چلتے ہیں۔ یہی ادارے یکجا ہو کر ریاست بناتے ہیں اور ریاست کی رٹ قائم کرتے ہیں۔ ادارے اپنی طاقت ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ یکجا ہو کر ریاست کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل سے نمٹنے کو استعمال کرتے ہیں۔ یہی رٹ بتاتی ہے کہ ریاست فلمی یا ڈرامائی نہیں اصلی ہے۔
اصلی اور فلمی ریاست میں فرق ہے تو بس اتنا کہ اصلی ریاست کے پیچھے اصلی طاقت و حقیقی کردار ہوتے ہیں اور فلمی ریاست کے پیچھے پروڈیوسر، سکرپٹ رائٹر، میک آپ آرٹسٹ، ڈائریکٹر، اداکار اور کیمرا مین ہوتے ہیں۔ مرکزی اور ایکسٹرا اداکاروں کی گفتگو کسی اور کی لکھی ہوئی اور کنٹرولڈ ہوتی ہے۔ مہابلی اکبر یا بادشاہ سلامت کا اتنا ہی کردار ہوتا ہے کہ وہ سکرین پر انارکلی کو چنوانے کے بعد شفٹ ختم ہونے پر تاج اور شاہی لباس اتار کر کاسٹیوم انچارج کے حوالے کرے اور تھیٹر کی پارکنگ سے اپنا موٹرسائیکل نکال کر گھر جاتے راہ سے سبزی لیتا جائے۔ اگلی صبح پھر اسے شفٹ پر آ کر تاج پہن کر تخت پر بیٹھنا ہے۔
کبھی کبھی قدرت کا نظام اصل ریاستوں کو بھی ان کے اعمال کے سبب فلمی ریاستوں میں بدل دیتا ہے۔ تاریخ بھری پڑی ہے۔ آخری چار عباسی خلیفاؤں کے پاس اتنا ہی اختیار تھا جتنا کسی اداکار کے قبضے میں ہوتا ہے۔ آخری دو سلجوق بادشاہ منگولوں کے مقرر کردہ اداکار ہی تو تھے اور اورنگزیب کے بعد جو بھی لال قلعہ کے درباری سیٹ پر بیٹھا ایسٹ انڈیا پروڈکشنز کا اداکار ہی تو تھا۔ خود ہمارے ہاں حکمران کون ہوتا ہے؟ اصلی آئینی کردار یا پھر اداکار؟
کچھ دکھائی یا سجھائی نہیں دے رہا۔ یہ تک پتہ نہیں چل رہا کہ یہ سارا منظر بذات خود کسی طویل مزاحیہ فلم کا ٹریجک سین ہے یا پھر کسی ٹریجک فلم کا مزاحیہ سین ہے۔ وہ کپتانی دور بھی بیت گیا تھا۔ یہ طوفانی دور بھی بیت جائے گا۔ دعا ہی ہے کہ کوئی معجزہ ہو جائے اور آنے والا دور خوشحالی اور آئین کی پاسداری کے ساتھ عوام میں کامن سینس بھی لے کر آئے۔