Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Vich Nai Bolna

Vich Nai Bolna

وچ نئیں بولنا

ایک صاحب انعام رانا اور مجھے ملنے کو تشریف لائے۔ وہ ہم دونوں کے شدید پرستار تھے۔ ان کے بار بار اصرار پر ہم نے اپنے ہوٹل ہی بلا لیا۔ صبح نو کا وقت تھا۔ رانا نے اپنی کافی مشین نکالی اور بولا "بخاری، آج امیرکانو کافی نہیں مل سکے گی۔ میں ڈبل ایسپریسو شاٹ بنا رہا۔ وہ ذرا کڑوا زیادہ ہوگا"۔ میں نے کہہ دیا کہ ٹھیک ہے بنا لو بس پھر اس میں تھوڑا پانی مکس کر دینا (تاکہ کڑواہٹ تھوڑی کم ہو سکے)۔ رانے نے بہت بڑا مگ رکھا ہوا تھا۔ اس کو لباب لب پانی سے بھر لایا۔ میں نے گھونٹ بھرا تو احساس ہوا کہ وہ کافی کم اور گرم پانی زیادہ ہے۔ میں نے کہا "رانا، تینوں کی لگیا سی شاہ کربلا توں پیاسا آیا اے؟ اینا پانی؟"۔ وہ صاحب جو بیٹھے ہوئے تھے وہ ہنس کے لوٹ پوٹ ہو گئے۔ رانے نے دانت نکالتے ہوئے کہا "اوئے مینوں لطیفہ یاد آ گیا"۔

ایک شاہ جی حسبِ معمول شام کو کڑوا گھونٹ بھرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ملازم پیگ تیار کر رہا تھا۔ اتنے میں ایک عزادار آیا اور بولا "پرسہ قبول کیجئیے شاہ صاحب، محرم کا چاند طلوع ہوگیا ہے"۔ شاہ جی نے ہوکا بھرا اور ملازم کو بولے "اوئے پانی نہ پاویں۔ پانی نہ پاویں"۔

وہ پرستار جو ملاقات کو بیٹھے ہوئے تھے کچھ دیر بعد بولے "ویسے میں تو اس خیال سے آیا تھا کہ آپ دونوں سے مل کر ادبی گفتگو ہوگی اور مجھے سیکھنے کو ملے گا۔ آپ دونوں تو سیریس بندے ہی نہیں ہیں"۔ رانے نے سُن کر کہا "پائین تہانوں کیوں لگدا اے کہ اسی ہر ویلے نوم چومسکی بنے پھردے آں؟ انسان نارمل وی رہ سکدا اے"۔ اگلے بہت سے دن ہم "نارمل" رہتے ہوئے سکاٹ لینڈ گھومے۔

سکاٹ لینڈ کے وسیع و عریض پہاڑی میدانوں میں رانا گاڑی چلا رہا تھا۔ موضوع گفتگو بدل کر میری ہجرت پر آ گیا۔ رانا صاحب مجھے لیکچر دے رہے تھے جس کا لب لباب یہ تھا کہ مجھے برطانیہ سیٹل ہو جانا چاہئیے۔ میرے پاس موقع ہے۔ وسائل ہیں۔ ہو سکتا ہوں۔ بچوں کا مستقبل سوچنا چاہئیے وغیرہ وغیرہ۔ وہ مجھے برطانیہ بسانے کا شدید خواہشمند ہے اور وجہ یہ کہ اسے لگتا میں لندن میں بس کر روز اسے مل کر "نارمل" باتیں کیا کروں گا اور یوں سب ہیپی ہیپی رہیں گے۔ میری بابت وہ جذباتی ہو جاتا ہے۔ لیکچر سے پہلے بولا "میری گل سُن تو وچ نئیں بولنا بس۔ چپ کرکے سُن"۔ میں اس کے دلائل سنتا رہا۔

جذباتی ہو کر اس نے گاڑی چلاتے سگریٹ نکالا۔ باتوں باتوں میں سگریٹ انگلیوں میں گھماتا رہا اور پھر منہ میں اُلٹا سگریٹ ڈال کر جلانا چاہا۔ میں نے کہا "او پائین سگرٹ۔۔ " اتنا ہی کہا تھا کہ پھر بولا "پ چ میری گل پوری سُن وچ نئیں بولنا۔ توں سُندا ای تے نئیں" اور پھر الٹا سگریٹ جلا بیٹھا۔ کش بھرا۔ جلے ہوئے فلٹر کا دھواں کھینچ گیا۔ پھر یکایک کھانسنے لگا اور کھانستے ہوئے گاڑی سائیڈ پر روک کر بولا "پ چ، توں مینوں دسیا کیوں نئیں؟"۔ میں نے کہا کہ استاد میں تو تجھے کہہ رہا تھا تو ہی کہتا رہا کہ چپ کر وچ نئیں بولنا۔ اس پر رانے نے معذرت کرتے کہا "نئیں توں بولیا کر۔ غلطی میری ہی سی"۔

پرانے زمانے کے ایک استاد بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور ان کی اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت تھی کہ جب بھی بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب المثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔

ایک بار دوران تدریس استاد صاحب حقہ پی رہے تھے۔ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔ ایک شاگرد اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا۔۔

"حضور والا! یہ بندۂ ناچیز حقیر فقیر، پرتقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کررہا ہے۔ وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹہ سے حقِ حقہ نوشی ادا فرما رہے ہیں۔ چند ثانیے قبل ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے بلند ہوکر چند لمحے ہوا میں ساکت رہا اور پھر آپ کی دستار فضیلت پر براجمان ہوگیا۔ اگر اس فتنہ کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضور والا کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں"۔

اتنی دیر میں چنگاڑی پگڑی کو نصف جلا چکی تھی اور آگ کے سینک سے استاد کے بال جھلسنے لگے تھے۔ استاد جی نے بھاگم بھاگ دستار کے پیچ کھولے اور صورتحال پر قابو پا کر بولے "بچو، میری غلطی بخش دو۔ جو کہنا ہو سیدھا کہہ دیا کرو"۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari