Urdu Ki Teacher
اردو کی ٹیچر
آٹھویں جماعت میں اردو کی ٹیچر ہمیشہ مجھے ہی کھڑا کرتی تھی اور بولتی تھیں کہ اونچی اونچی شعر پڑھو اور ساتھ تشریح بھی سناؤ۔ میں پڑھتا تو بچے سنتے رہتے، لیکن ٹیچر ہمیشہ ہنستی تھی۔ کبھی کبھار اونچی ہنس پڑتی تھی تو میں رک جاتا۔ وہ پھر کہنے لگتیں"تم پڑھنا جاری رکھو" ایک دن مجھے غصہ آ گیا۔ ظاہر ہے بچے میں بھی ایگو تو ہوتی ہے۔ جونہی مِس ہنسیں میں نے کتاب نیچے رکھ دی اور بولا "مِس آپ کیوں ہنستی ہیں؟
میں نہیں پڑھوں گا" مِس نے ایک دم سنجیدہ ہو کر مجھے گھورا اور اونچی بولی "جلدی پڑھنا شروع کرو" باقی کلاس کے بچے ہنسنے لگ گئے اور میں ڈر کے پھر پڑھنے لگ گیا۔ اس دن گھر آ کر میں نے سکول جانے سے انکار کر دیا۔ مجھے شدید غصہ تھا۔ امی نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے، تو میں نے کہا " میں سکول ہی نہیں جاؤں گا یا پھر اردو کی کلاس میں نہیں پڑھوں گا۔ اقتباسات یا شعر کچھ بھی نہیں پڑھوں گا۔
ٹیچر پتہ نہیں کیوں ہنستی ہے اور مجھے اچھا نہیں لگتا۔ مجھے لگتا ہے جیسے میرا مزاق اڑا رہی ہو" امی نے کہا "اچھا میں صبح ٹیچر سے بات کروں گی" میری والدہ خود سرکاری سکول میں ٹیچر تھیں۔ اگلے دن امی اپنی جاب سے آدھی چھُٹی لے کر میرے سکول آئیں۔ مجھے پرنسپل اور ٹیچر نے کمرے سے یہ کہہ کر نکال دیا کہ تم جا کر کلاس میں بیٹھو، ہم اکیلے بات کر لیں گے تمہاری امی سے۔
میں کلاس میں نہیں گیا بلکہ پرنسپل کے کمرے کے باہر کھڑا ہو کر امی اور ٹیچر کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد امی میری ٹیچر کے ساتھ کمرے سے باہر آئیں تو مجھے دیکھ کر وہ بھی ہنس پڑیں اور ٹیچر بھی۔ دونوں نے مجھے کہا کہ اچھا آئیندہ سے کوئی نہیں ہنسے گا، پرامس۔ اس دن کے بعد سے ٹیچر مجھے کہنا بھی چھوڑ گئی یا کبھی کبھار پڑھنے کا کہہ بھی دیتی تو ہنستی نہیں تھیں۔
گھر آ کر امی نے کوئی بات نہیں کی میں نے بھی نہیں کریدا۔ رات کو والد گھر آئے تو امی انہیں کھانا دیتے اپنی طرف سے آھستہ آھستہ بات بتا رہیں تھی۔ لیکن مجھے سنائی دے رہا تھا، بچوں کی قوتِ سماعت بھی بڑی تیز ہوتی ہے۔ امی نے بتایا کہ یہ غصہ کرتا ہے۔ اس کی ٹیچر سے بات کی تو اس نے کہا اصل میں یہ "ر" نہیں بولتا "ڑ" بولتا ہے، تو جب اردو کے اشعار پڑھتا ہے تو سننے میں بڑا کیوٹ لگتا ہے۔
میں اسی وجہ سے اکثر اسے پڑھنے کو کہتی ہوں اور کوئی وجہ نہیں۔ اس رات مجھے بڑی دیر بعد نیند آئی۔ میں کافی دیر "ر" بولنے کی مشق کرتا رہا۔ اس کے بعد بھی کئی دن مشق کرتا رہا کہ "ر" صحیح تلفظ کے ساتھ ادا ہو، لیکن آج تک نہیں ٹھیک ہو سکا، اب میں کبھی سوچوں تو خود ہنس پڑتا ہوں کہ ٹیچر ٹھیک ہی ہنستی تھی۔ جب مومن کا شعر کچھ یوں سنائی دے تو کس کو ہنسی نہیں آئے گی۔
تم میڑے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسڑا نہیں ہوتا
کچھ سال پہلے سیالکوٹ میکڈونلڈ کے سامنے مِس بشری اتفاق سے مل گئیں۔ میں نے سلام کے بعد پوچھا، آپ مِس بشری ہیں؟ مِس ہنسیں اور بولی میں مِس بشڑی نہیں بشری ہوں، تمہاری ڑ آج تک پھنسی ہوئی ہے۔ میں یہی سوچ رہی تھی کہ بچہ دیکھا ہوا لگتا ہے۔ تم بالکل اپنے بچپن جیسے ہی ہو، میں نے ہنس کر پوچھا، مِس آپ کافی بدل چکی ہیں، میں نے بہت مشکل سے پہچانا۔
ان کے ساتھ دو نوجوان لڑکے تھے، میں نے پوچھا یہ آپ کے بیٹے ہیں تو مِس بولی نہیں بھائی کے بیٹے ہیں، میرے ہی سمجھو، میں نے شادی نہیں کی کھڑے کھڑے ہی کافی دیر بات ہوئی، کافی سوالات تھے۔ ان کے کہ کیا کرتے ہو، کیسے ہو، کیا جاب ہے وغیرہ وغیرہ، زمان و مکان کے ساتھ کیسے کیسے لوگ ایک دم پھر سے سامنے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے پہلے امیج کے برعکس، گزرتا زمانہ انسان کو یا تو تبدیل کر دیتا ہے یا سوجھ بوجھ دے دیتا ہے۔
یہی مِس جن پر غصہ آتا تھا، اب کیسے اچھی لگ رہی تھیں۔ بچہ بھی تو بڑا ہو چکا تھا۔ ایک دن انہوں نے میرا پیج ڈھونڈ نکالا اور مجھے بہت لمبا تعریفی انباکس میسج کیا کہ جس کا لب لباب یہ تھا۔ مجھے تم پر بہت فخر ہے کہ تم میرے سٹوڈنٹ رہے۔ وہ پڑھ کر میری آنکھ بھیگ گئی۔ میں نے انہیں جواب دیا "مجھے بھی فخر ہے مِس کہ مجھے "اڑدو" اور بقول آپ کے "اردو" آپ نے ہی سیکھائی۔