Wednesday, 08 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rehmat Aziz Khan
  4. Saleem Kausar Ki Ghazal Ka Tanqeedi Mutala

Saleem Kausar Ki Ghazal Ka Tanqeedi Mutala

سلیم کوثر کی غزل کا تنقیدی مطالعہ

سلیم کوثر کہتے ہیں "میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے / سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے"۔ یہ شعر سلیم کوثر کی ایک عمیق اور فکری تخلیق ہے جس میں شاعر نے انسانی زندگی کی پیچیدگیوں، جذباتی تضادات اور حقیقت و وہم کے درمیان کشمکش کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

سلیم کوثر کی غزل کے اشعار میں موضوعاتی تنوع موجود ہے جس کا مرکزی خیال شناخت، تقدیر اور تعلقات کی غیر یقینی صورتحال کے گرد گھومتا ہے۔ شاعر نے اپنی شناخت کو ایک ایسے خیال کے طور پر پیش کیا ہے جو کسی اور کا ہے اور یہ انسانی زندگی کی اس کیفیت کو ظاہر کرتا ہے جہاں فرد اپنے وجود اور تعلقات کے بارے میں تذبذب کا شکار رہتا ہے مثلاً:

"میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے"

اس شعر میں شاعر نے وجودی کشمکش کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے اس شعر میں شاعر اپنی ذات کو کسی اور کی تخلیق یا سوچ کے طور پر دیکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ انسان کی شناخت اور اس کی حقیقت دوسروں کی نظر میں مختلف ہو سکتی ہے۔

اسی طرح زندگی کی بے یقینی اور تضاد کو شاعر نے اس شعر میں بیان کیا ہے:

"عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی"

یہاں شاعر نے زندگی کو ایک مسلسل کشمکش کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جہاں اعتماد اور بے اعتمادی کے درمیان انسان کی شناخت اور تعلقات جکڑے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

غزل میں فلسفیانہ خیالات بھی موجود ہیں۔ خاص طور پر وجودیت کی جھلک نمایاں ہے۔ شاعر نے خدا، تقدیر اور انصاف جیسے موضوعات پر سوال اٹھائے ہیں مثلاً:

"جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی"

یہ شعر روحانی جدوجہد اور اس کے نتیجے میں حاصل نہ ہونے والی کامیابی کی تصویر کشی کرتا ہے۔ شاعر یہاں خدا کے تصور پر سوال اٹھاتا ہے اور اسے انسانی جدوجہد کے تناظر میں دیکھتا ہے۔

سلیم کوثر نے اپنے اشعار میں استعارے اور تشبیہات کا استعمال نہایت عمدگی سے کیا ہے۔ سر آئینہ، پس آئینہ جیسے استعارے داخلی اور خارجی شناخت کی کشمکش کو ظاہر کرتے ہیں۔

روشنی اور خد و خال کا ذکر حسن اور حقیقت کے درمیان تعلق کو اجاگر کرتا ہے۔

غزل کا ایک اہم پہلو اس کا غیر روایتی موضوع ہے۔ سلیم کوثر نے روایتی عشق و محبت کے موضوعات سے ہٹ کر وجود، شناخت اور انسانی تعلقات کی پیچیدگیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔

تاہم بعض اشعار میں ابہام زیادہ نظر آتا ہے جو قاری کے لیے مشکل پیدا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ کیجیئے:

"تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے"

یہ شعر معنوی گہرائی کے باوجود وضاحت میں کمی کا شکار ہے جو قاری کو الجھن میں ڈال سکتا ہے۔

سلیم کوثر کی یہ غزل نہ صرف ان کے فکری اور فلسفیانہ رجحانات کو ظاہر کرتی ہے بلکہ اردو غزل کے جدید رجحانات کی بھی عکاس ہے۔ اس میں زندگی کے تضادات، انسانی شناخت کے بحران اور روحانی سوالات کو انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔

ان کی یہ تخلیق اردو ادب میں جدید غزل کی ایک عمدہ مثال ہے جو روایت اور جدت کا حسین امتزاج پیش کرتی ہے۔ صرف مندرجہ ذیل اشعار کو ناقدین تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں کہ اس میں خدا کی قدرت پر سوال اٹھایا گیا ہے:

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

یہ شعر شعرِ متعرضہ کے طور پر میرے سامنے ہے باقی تمام اشعار سلیم کوثر کی شاعری کے شاہکار نمونے ہیں۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے سلیم کوثر مشہور غزل پیش خدمت ہے۔

غزل

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے

میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے

عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے مجھے جانتا کوئی اور ہے

مری روشنی ترے خد و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تو قریب آ تجھے دیکھ لوں تو وہی ہے یا کوئی اور ہے

تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتا نہیں
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے

وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پر مری سزا کوئی اور ہے

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

جو مری ریاضت نیم شب کو سلیمؔ صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے

Check Also

Sarak Roti Deti Hai, Zindagi Deti Hai

By Najam Wali Khan