Turkey Ka Pakistan Se Siasi Mawazna
ترکی کا پاکستان سے سیاسی موازنہ
میں دو بار ترکی گیا اور جب جب گیا واپسی پر دوستوں نے پوچھا کہ ترکی کا پاکستان سے سیاسی موازنہ کروں۔ بہت سے خواب پرست دوستوں کی طرح تمنا تو میری بھی بہت ہے کہ ترکی اور پاکستان کا خواہشاتی موازنہ کروں مگر اس موازنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں ملتا کہ ترکی میں بھی فوج نے چار بار جمہوریت کا تختہ الٹا اور پاکستان میں بھی۔
ترکی میں بھی پہلے منتخب وزیراعظم عدنان مندریس کو فوج نے پھانسی دی اور بعد میں ایک پاکستانی جنرل کو بھی حوصلہ ملا کہ منتخب وزیراعظم لٹکانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ کمال اتاترک نے جرنیل ہونے کے باوجود حاضر سروس فوجیوں کا سیاست میں عمل دخل ممنوع قرار دے دیا تھا۔ حالانکہ محمد علی جناح نے پاکستان بننے کے فوری بعد جنرلوں کو ایک سے زائد مرتبہ تنبیہہ کی کہ ان کے لیے سیاست کا پھل سور برابر ہے۔
مگر کیا کیا جائے کہ اتاترک اور جناح صاحب کے دور تک امریکہ بس ایک ملک تھا۔ دنیا پر طاری ہونے والی کیفیت نہیں بنا تھا۔ امریکی کیفیت کے تحت پچاس، ساٹھ اور ستر کی دہائی میں لاطینی امریکہ سے انڈونیشیا تک فوجی حکمرانی فیشن اور استحکام کا استعارہ بن گئی۔ اتحادوں کے ڈورے ڈالے گئے۔ ترکی نیٹو اور سینٹو میں اور پاکستان سینٹو اور سیٹو میں گھسیٹا گیا اور سنہ 1958 میں پاکستان کو اور سنہ 1960 میں ترکی کو جنرل ایوب خان اور جنرل جمال گرسل کی شکل میں ایک ایک مردِ آہن عطا ہو گیا۔
فوج ایک بار خیمے میں گھس جائے تو بمشکل ہی نکلتی ہے۔ لہٰذا ترکی میں فوج نے سیکولرازم کے محافظ کے طور پر اپنا آئینی کردار پکا کر لیا اور پاکستان میں مستقبل کی سویلین حکومتوں کے لیے روبوٹ فیکٹری قائم ہوئی جنہیں خاکی ریموٹ کنٹرول پر رکھا جا سکے۔ جب جب پاکستان میں فوجی حکمرانی سے بیزاری مقررہ حد سے بڑھ جاتی تو سویلینز کو موقع مل جاتا اور جب سویلینز اپنے ہی سیاسی کچا پن اپنے ہی گلے کا پھندہ بنا لیتے تو فوج پھر تازہ دم حکمرانی کے لیے تیار ہوتی۔
جبکہ ترک فوج کا عمل دخل بطور ریفری چونکہ آئینی طور پر پہلی باری میں ہی حلال کر لیا گیا تھا لہٰذا وہاں فوج کو پاکستان کے برعکس کبھی بھی تین، چار، پانچ برس سے زیادہ براہِ راست اقتدار میں رہنے کی ضرورت نہ پیش آئی۔ فوج نے ترکی میں آخری حکومت سنہ 1997 میں گرائی جب صدر نجم الدین اربکان کو معزول ہونا پڑا اور فوج کی ہم قدم عدلیہ نے اربکان کی ویلفیئر پارٹی کالعدم قرار دے دی۔
ویلفیئر پارٹی کے کالعدم ہونے کے بعد عبداللہ گل اور رجب طیب اردوان نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی جو پہلی بار سنہ 2002 میں بھاری اکثریت سے اقتدار میں آ گئی اور اب تک ہے۔ سوال یہ ہے کہ اردوان اینڈ کمپنی کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگھی ہے کہ انہوں نے فوج کی اقتداری خواہشات کو بتدریج قابو کر لیا؟ بڑا سیدھا سا نسخہ تھا۔ پارٹی کو ملک گیر بنانے کی کوشش کرو، معیشت پر سنجیدگی سے توجہ دے کر اس سے عام آدمی کا مفاد جوڑو اور ووٹ بینک کو توسیع دے کر پکا کرو۔
اس بیچ اتاترک کے سیکولر نظریے سے مفت کی چھیڑ خانی مت کرو۔ جب تم جمہوری و دفتری طور پر مضبوط ہو جاؤ تب کہیں جا کے فوج کا سیاسی کردار سمیٹنے پر توجہ دو۔ شروع کے آٹھ برس معیشت پر توجہ دی گئی۔ افراطِ زر نوے فیصد سے کم کر کے ساڑھے چھ فیصد تک لایا گیا۔ معیشت میں پہلے پانچ برس سات فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہوا۔ آج ترکی کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 145 ارب ڈالرز ہیں۔
ترکی 18 ویں بڑی عالمی معیشت ہے جس میں خواندگی کا تناسب 98 فیصد ہے۔ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کا تناسب 17 فیصد رہ گیا ہے۔ شہری مڈل کلاس کو اگر اعتراض ہے تو اردوان کے سخت گیر طرزِ حکومت پر۔ مگر قصباتی و دیہی آبادی اردوان کا پکا ووٹ بینک ہے۔ حزبِ اختلاف کو اردوان کے مذہبی رجحان اور سخت مزاج سے یقیناً شکایت ہے مگر اردوان کے خلاف ہوئی فوجی بغاوت کے خلاف تمام سیاسی جماعتیں اردوان کے ساتھ تھیں۔
کچھ دوست پوچھ رہے تھے کہ ترکی کی طرح پاکستان میں اگر پانچویں "کُو" کی کوشش ہوتی ہے تو کیا اسے روکا جا سکتا ہے؟ میں ان سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا پاکستان میں کوئی ایسی ملک گیر سیاسی جماعت ہے جس کا ووٹ بینک اس پر مسلسل اعتماد کر سکے اور کسی نجات دہندہ کا خیال اس کے ذہن میں نہ آئے؟ کیا معاشی و سماجی ترقی کے جمہوری ثمرات سے عام آدمی کو اتنا جوڑا گیا کہ اسے بچانے کے لیے جان دینے سے بھی دریغ نہ کرے؟
ترکوں کو جمہوریت کی اس نہج تک پہنچنے میں 1923 سے اب تک 99 برس لگے۔ ہم تو اب تک 1977 کے ضیاء الحقی دائرے میں گول گول گھوم رہے ہیں۔