Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Teen Shudh Lahori

Teen Shudh Lahori

تین شُدھ لاہوری

مانچسٹر شہر سے نکل کر سکاٹش ہائی لینڈز کی خوبصورتی کے گُن گاتے رانا اور میں شام ڈھلے اس دنیا کے آخری کونے یعنی نارتھ سی کے ساتھ واقع ایک سکاٹ قصبے "ٹین" میں وارد ہوئے۔ وہاں ہمارے میزبان ایک شُدھ لاہوری تھے جن سے پہلی بار ملاقات ہو رہی تھی۔ بہت ہی ملنسار نوجوان تھا۔ ہم عمر تھا۔ ملنے پر معلوم ہوا کہ بھائی صاحب نے انگلینڈ میں آ کر عرصہ قبل تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔ پاکستان میں وہ پاسٹر رہے اور چرچ میں سروس کرتے رہے۔ پھر ان کو تاریخ اور ادیان کی سٹڈی کا شوق چڑھا۔ زمانے اچھے تھے۔ ہجرت کرکے برطانیہ آ گئے اور اب وہ سکاٹ لینڈ کے ایک خوبصورت قصبے میں ہوٹل چلا رہے اور بال بچوں سمیت سیٹل ہو چکے۔

ان کو عرصے بعد کوئی ہم وطن ملا تھا۔ اوپر سے لاہوری۔ فرمانے لگے یہاں گورا لوگ (برطانوی، یورپی، امریکن) بہت آتا ہے، دیسی میں کوئی بھارتی چلا آتا ہے مگر لاہوری ندارد۔ ان کی طبیعت ہمیں دیکھ کر باغ باغ ہوگئی۔ ہوٹل میں ایک بہت ہری بھری بار تھی جس میں دنیا جہاں کے مہنگے تا سستے مشروبات مغرب سجے تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں چلتی رہیں۔ یکایک ان کو مہمان نوازی کا خیال آیا تو پنجابی میں بولے "وہسکی چلے گی یا رم یا وائن یا بئیر؟"۔ رانا نے یہ سُن کر سگریٹ کا کش کھینچتے کہا "او نئیں یار! اے شاہ، میں رانا۔ کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا، گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں"۔ میزبان نے اظہارِ افسوس کرتے فرمایا کہ الحمدللہ وہ اب ایتھیسٹ ہو چکے ہیں۔ جندگی کا مزہ تو کھٹے میں ہے۔

پھر مجھے دیکھ کر بولے "آپ کٹر والے شیعہ ہیں؟"۔ رانا بھائی کا ہاسا نکل گیا۔ بولا "او نئیں پائین اے وی تُسی ای او۔ اینے وی چار کتاباں پڑھ لیاں نیں"۔ یہ سُن کر وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر انعام کو دیکھ کر پوچھا "تے تُسی پکے بریلوی او پائین؟"۔ میں تورنت بولا "او نئیں پائین، چار کتاباں عرشوں لتھیاں پنجواں لتھا ڈنڈا۔ چار کتاباں کُجھ نہ کیتا سب کُجھ کردا ڈنڈا۔۔ اے ڈنڈا اے بس"۔ اس کے بعد میزبان نے مسلم تاریخ اور شیعہ سنی مسائل پر اتنا مفصل بیان دینا شروع کیا کہ رانا اور میں انگشت بہ دندان رہ گئے کہ اسے کیسے اتنا معلوم؟ پھر رانا کو خیال آیا کہ اگلے نے تو تقابل ادیان میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

پھر اچانک ان کو خیال آیا۔ جھٹ پٹ بار میں تشریف لے گئے۔ ہمیں بھی آنے کا کہا اور پھر وہسکی کے فضائل پر مفصل دورہ شروع کر دیا۔ بھائی صاحب نے شاید مشروبات مغرب پر بھی ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی تھی۔ سنگل مالٹ کیا ہوتا ہے، ڈبل مالٹ کسے کہتے ہیں۔ سموکی، فروٹی، وغیرہ وغیرہ میں کیا فرق ہوتا ہے، سٹور کرنے والی لکڑی کی بیرل میں جو لکڑی استعمال ہوتی ہے وہ کیسے سالوں میں اپنا فلیور چھوڑتی ہے۔ پانی ڈالیں تو کیا ہوتا، برف کی ڈلی کیسے الکوحل کے کیمیکل بانڈز کو توڑتی ہے۔ مہنگی کیوں مہنگی ہوتی ہے۔ نشہ کیسے ہوتا اور کیسے نہیں ہوتا۔ گلاسوں کی شیپ سے کیا فرق پڑتا ہے۔ جام کو ہلانا کہاں ضروری ہے کہاں نہیں۔ الغرض انہوں نے وہ وہ فضائل گنوا ڈالے کہ رانا بھائی رہ رہ کر میری طرف دیکھتے اور ہونٹوں پر زبان پھیرتے رہے۔ میں انکار میں مُنڈی ہلا دیتا۔

بلآخر میزبان نے ایک جام بنا کر سامنے رکھا اور بولے "دنیا کی بیسٹ بیس سال پرانی فلانی وہسکی اور بوتل کی قیمت اٹھارہ ہزار ڈالرز"۔ انعام بھائی نے ڈرامائی انداز میں بار کی کرسی سے منہ موڑ کر اُٹھتے کہا "او مار چھڈیا ای جواناں۔۔ نئیں نئیں نئیں۔۔ بس کر دے بس کر دے۔۔ "۔ پھر میزبان نے ہنس کر جام میرے سامنے بڑھا دیا تو میں نے بھی اُٹھتے ہوئے کہا "اے نئیں ہو سکدا۔۔ مگر وللہ، ساڈے ایمان دا امتحان نہ لو"۔ میزبان نے کھُل کے قہقہہ برسایا اور ہم دونوں پر پھٹکار بھیجتے ہوئے دو تین گھونٹ میں خود چڑھا گئے۔

اس کے بعد پھر مختلف موضوعات پر باتیں شروع ہوگئیں۔ کوئی گھنٹہ بیت گیا تو میزبان کی رگ پھر سے پھڑکی۔ انہوں نے پھر سے کوئی مہنگی نسل کی وائن نکال لی اور انتہائی اعتماد سے بولے "وائن نال تے ککھ نئیں ہوندا انعام پائی"۔ رانے نے پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری اور بولا "اوئے آہو، ہونا کی اے پر توں ہجے بخاری نوں نئیں جاندا۔۔ سانوں پاویں ککھ نہ ہوے اینے کروا کے چھڈنا"۔ میں نے لقمہ دیا کہ رانا بھائی اتنی بدگمانی بھی اچھی نہیں ہوتی۔ وللہ، بات فیسبک سے باہر نہیں جائے گی۔ بات پھر ہنسی میں ٹل گئی البتہ میزبان یہ سمجھ گئے کہ رانا بخاری کی وجہ سے نیک بنا ہوا ہے۔

انہوں نے مجھے ٹارگٹ کر لیا۔ رہ رہ کر کچھ نکال لاتے اور اس کے فضائل یوں بیان فرماتے گویا دیگی قورمہ یا حلیم ہے یہ نہ چکھی تو کیا چکھا۔ انعام ہونٹوں پر زبان پھیر کے پیاسا سا رہ جاتا اور میں ہنس کے کہہ دیتا "بہت ودیا، سواد آ گیا۔ سمجھو چکھ لئی۔ تُسی چکو"۔ رات گئے تک میزبان خود پی پی کر تھک گئے اور بلآخر بولے "تُسی دویں جے لاہور توں نہ ہوندے قسمے میں تہانوں رخصت کر دینا سی"۔

اگلے دو روز ہم اپنے میزبان کے ساتھ گھومتے رہے۔ البتہ اب ان کو پختہ یقین ہو چکا تھا کہ ابلیس مردود کے بہکاوے میں یہ نہیں آنے والے۔ گاہے گاہے "ڈرائی کمپنی" کا گلہ سا کرتے اور پھر ساتھ ہی کہتے کہ آپ دونوں سے بڑے عرصے بعد دل کی باتیں کی ہیں مزہ آ گیا۔ میں آپ دونوں کو بہت یاد کروں گا اور ہو سکے تو جب دل کرے میرے پاس آ جایا کریں۔ وقت رخصت انہوں نے ہمیں گفٹس بھی دیے۔ اداس سا ہوگیا۔ واپسی پر ہم بھی اس کی میزبانی اور محبت کو یاد کرتے رہے۔ میں تو خیر وطن واپس آ گیا البتہ انعام بھائی سے وعدہ لیا کہ تو اکیلا اس کے پاس کبھی نہیں آئے گا۔ پہلے پہل تو وعدہ کرنے سے ٹالتے رہے۔ ہر بار ہونٹوں پر زبان پھیر کر کہتے "او یار اس نے اتنی محبت دی، تحائف دیے۔ اس کو جب تک تحفہ نہ دے لوں مجھ پر بار (بوجھ) رہے گا"۔ میں نے کہا "ابے پیارے (متبادل لفظ استعمال نہیں کر رہا) اسی "بار" کے سبب کہہ رہا ہوں کہ تو اکیلا نہیں آئے گا۔ مجھ پر بھی بار ہے"۔

میں وثوق سے تو نہیں کہہ سکتا کہ انعام بھائی اپنا وعدہ نبھاہتے ہیں یا مجھ سے چھپ کر وزٹ کر لیتے ہیں۔ کیونکہ ایک تو وہ خود پر بار محسوس کر رہے دوجا بارہا اپنے ہونٹوں پر زبان سی پھیرتے تھے۔ آج بوقت فجر بعد از نماز سپیشل دعا مانگی کہ پروردگار رانا بھائی کے ہونٹ خشک ہی رکھنا۔ آمین یا رب العالمین۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam