Sultan Rahi
سلطان راہی
مرحوم سلطان راہی کی فلمیں دیکھ لیں اور نواز شریف کے تینوں ادوار ملاحظہ کر لیجیے۔ آپ کو ایک قدرِ مشترک مسلسل دکھائی دے گی۔ جب تک بیک وقت آٹھ ڈانگ بردار دشمن ہیرو پر پل نہیں پڑتے تھے، تب تک سلطان راہی کو سکون نہیں ملتا تھا۔ اور پھر ہمارا ہیرو اپنی ڈانگ پر آٹھ ڈانگیں روک کر ایسے جھٹکا دیتا کہ آٹھوں ڈانگیں ہوا میں اڑ جاتیں اور دشمن زمین پر چت پڑے نظر آتے۔
ہمارے میاں صاحب بھی سلطان راہی کی طرح تب تک متحرک نہیں ہوتے، جب تک دشمن اکٹھے ہو کر ان پر وار نہ کریں۔ البتہ ایک فرق ضرور ہے۔ سلطان راہی ہمیشہ دشمنوں کو اپنی ڈانگ کے ایک جھٹکے سے خاک چٹوا دیتا تھا۔ مگر میاں صاحب لڑتے لڑتے آخر میں اپنی ہی ڈانگ کے زور پر گر پڑتے ہیں۔ سلطان راہی کو ایسی فائٹ کا نہ صرف پیسہ وصول ہوتا تھا۔
بلکہ فائٹنگ سیکوئنس وقفے وقفے سے فلمانے کے سبب انہیں سانس لینے کا موقع اور پسینہ پونچھنے کا تولیہ بھی مل جاتا تھا۔ مگر ہمارے سیاسی مولا جٹ کو ہر بار رئیل فائٹ درپیش ہوتی ہے۔ اصلی دشمنوں اور اصلی ڈانگوں سوٹوں والی فائٹ۔ اس میں کوئی کیمرا ٹرک یا ایڈیٹنگ نہیں۔ جو بھی ہو سامنے ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے سلطان راہی ہر فلمی فائٹ جیت جاتا تھا اور میاں صاحب ہر سیاسی فائٹ میں زخمی ہو کر چت ہو جاتے ہیں۔
اب تو میاں صاحب سیاست میں اتنے پرانے ہو چکے ہیں کہ انہیں یہ بھی نہیں سمجھایا جا سکتا کہ "مولے نوں مولا نہ مارے تے مولا نئیں مر سکدا" سلطان راہی کو ایک نوری نت درپیش تھا اور میاں صاحب کو ایک عمران خان درپیش ہے۔ اور بالفرض عمران خان نہ بھی ہوتا تو پھر بھی وہ اپنا نوری نت خود تخلیق کر لیتے۔ تینوں ادوار گواہ ہیں کہ میاں صاحب کسی بھی سیاسی نوری نت کو برابر کا جوڑ تسلیم نہیں کرتے تھے۔
اسی لیے وہ عادتِ مہم جوئی کی تسکین کے لیے اپنے ہی ہاتھوں بنائے باوردی بتوں کو نتوں میں ڈھالتے رہے اور پھر ان سے ڈانگ سوٹا کھیلنے میں تکمیلِ شوقِ مرگ کا لطف نچوڑ لیتے۔ وضع دار اور بامروت کمپنیاں کسی ملازم کو نکالنا چاہیں، تو اسے برطرف نہیں کرتیں بلکہ ایک کونے میں بغیر کام دئیے خالی میز کرسی دے دیتی ہیں تاکہ وہ جتنی دیر بیٹھنا چاہے بیٹھے، چائے وائے پیتا رہے اور بور ہو تو چلا جائے۔
چند روز میں عقلمند ملازم خود ہی سمجھ جاتا ہے کہ اب کمپنی کو اس کی ضرورت نہیں رہی۔ لہذا وہ نئی ملازمت تلاش کر کے خوشی خوشی استعفیٰ دے دیتا ہے۔ لیکن کچھ ملازم ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو فائلوں سے خالی میز کو سزا کے بجائے جزا سمجھ کر ٹکے رہتے ہیں اور خود پر پڑنے والی سوالیہ نگاہوں کو تعریفی نگاہیں فرض کرتے رہتے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پانامہ پیپرز پر فارغ ہونے والے میاں صاحب اب بھی خود کو مرکزی کردار سمجھتے ہوئے واپسی کی راہ کے خواہشمند ہیں۔ ان کو یہ بات کون سمجھائے گا کہ رہے وہ بھی نہیں تو بچا خان بھی نہیں۔ لہذا دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے کے اصول کے تحت سیاسی جماعتوں کو آپس میں مل کر کم از کم اس ایجنڈے پر متفق ہونا چاہئیے کہ سیاسی نوری نت قبول ہے۔
باوردی نوری نت کا مل کر سامنا کیا جائے گا۔ مگر یہاں بھی کیا کیجئیے۔ عمران خان بھی خود کو سلطان راہی کا جانشین جانتے ہوئے بڑھکیں لگا رہے ہیں"میں کلا ای کافی آں" اس کے جواب میں میرے جیسا کند ذہن بھی کہہ اٹھتا ہے "نواں آیا ایں سوہنیا" تو حقیقی نوری نت تو لازماً قہقہے لگا کر کہتا ہو گا۔ فی الحال حالات اسی جانب جاتے لگتے ہیں۔ جب سلطان راہی بننے کے شوقین دونوں کردار جیلر کی جانب سے ایک ہی خانے میں فٹ کر دئیے جائیں گے۔