Thursday, 05 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Sudharne Ke Teen Moqe

Sudharne Ke Teen Moqe

سدھرنے کے تین موقعے

پاکستان اور کسی معاملے میں خوش قسمت ہو نہ ہو لیکن ایک معاملے میں قدرت نے ہمیشہ اس کے معاملے میں فیاضانہ فیاضی سے کام لیا ہے۔ باقی قوموں کو تو سنبھلنے کے لئے ایک یا زیادہ سے زیادہ دو مواقع ملتے رہے اور پھر قدرت نے کہہ دیا کہ "کھسماں نوں کھاؤ" مگر پاکستان کو پچھلے چوہتر برس میں تیسرا موقع مل رہا ہے خود کو سنبھلنے کا۔

پہلا موقع پندرہ اگست 1947 کو ملا مگر باپ کے مرتے ہی ہم اس ناخلف اولاد میں تبدیل ہوتے چلے گئے جو ترکے میں ملی جائیداد اور رقبہ ٹکرے ٹکرے بیچ کے اپنی شان و شوکت کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ بھلے کیپسٹن کا پیکٹ خریدنے کے قابل نہ ہو مگر ہائے رے وضع داری کہ گولڈ لیف کے بنا سواد نہیں۔ اور پھر گھر کے سامان کی آپس میں بانٹ پر سر پھٹول اور پھر تھانہ کچہری کی نوبت آ جاتی ہے۔ اور پھر جائیداد "کسٹوڈین" کے حوالے ہو جاتی ہے اور وارثین کنگلے رہ جاتے ہیں۔ چلو جیسے بھی ہوا 1958 میں صدر پاکستان سکندر مرزا نے آئین معطل کرتے ہوئے مارشل لاء نافذ کر دیا اور پھر ایوب خان نے سکندر مرزا کو معطل کرتے ہوئے طاقت اپنے ہاتھ لے لی۔ "کسٹوڈین" آ گئے۔

پاکستان کو سدھرنے کا دوسرا موقع مشرقی پاکستان کے جدا ہونے کے بعد ملا۔ مگر اس موقع کو قومی تعمیر سازی کے واسطے استعمال کرنے کی بجائے اس ملک کے چارہ سازوں نے آس پاس میں جواریوں کی صحبت اختیار کر لی۔ پرائے پھڈوں میں "تو کون میں خوامخواہ" بننے میں مزہ آنے لگا۔ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا غیرتی اصول بھول بھال کر دوسروں کے دیے ہوئے خرچے پر شاہ خرچیاں ہونے لگیں۔ کہاں یہ حالت کہ "گھر میں نہیں دانے اور اماں چلی بھُنانے" اور کہاں ایسی مہمان نوازی کہ تُو بھی آ جا، ارے تُو بھی آ جا۔ اے عربو، اے افغانیو، اے چیچنو، اے مصریو، سب آ جاؤ۔ ارے پوچھنے کی کیا بات ہے تمہارا اپنا گھر ہے۔ جب تک چاہے رہو، جیسے چاہے رہو۔

اگر کوئی پوچھتا کہ بھائی کنگلے یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تو جواب ملتا "اوئے تینوں نئیں پتا۔ تینوں کی پتا کہ اپنی ٹور بنانے کے لئے ڈیرے داری رکھنی پڑتی ہے۔ لے یہ انگوٹھی بھی بیچ دے اور بن بلائے مہمانوں کی روٹی بستر کا انتظام کر۔ پورا نہ پڑے تو شیخ سے میرے نام پر تھوڑا ادھار لے آنا۔ وہ کھاتے میں لکھ لیں گے"۔ پاکستان دنیا بھر کے "ماسٹر ٹرینرز" کا استقبالیہ کیمپ بن گیا۔ اور پھر وہ اودھم مچا کہ میزبان بھی اپنا زخمی وجود پکڑے کہنے لگا "اوئے اے میں کی کر بیٹھا"۔

اور اب تیسرا موقع نصیب ہو رہا ہے۔ پاکستان کو امریکا کے کیمپ سے رخصت لے کر ہمسائیہ ممالک روس و چین سے باہمی مفاد کے تعلق کو بڑھانا چاہئیے لیکن کسی بلاک یا سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہئیے۔ یہ دونوں کیمونسٹ یا موڈیفائیڈ کیمونسٹ ملک ہیں۔ یہ خیرات یا بھیک کا پٹا گلے میں نہیں ڈالیں گے نہ آپ کی مالی مدد کریں گے البتہ یہ آپ کو کام کرنا، محنت کرنا، بزنس کرنا سکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں (بشرط وہ چاہیں تو)۔

آپ کا امریکا پر قومی غصہ بجا ہے مگر آپ عوام بھی یہ کب سمجھیں گے کہ ایکشن کا محض ری ایکشن کوئی حکمت عملی نہیں ہوتی۔ کیا کسی درخت کے پتے جھاڑنے سے درخت کا وزن ہلکا ہوا ہے جب تک اس کی جڑ پر ہاتھ نہ ڈالیں؟ یو ناؤ واٹ آئی مین؟ کسٹوڈین وغیرہ کو سٹینڈ لینا ہو گا اور امریکی کیمپ سے باعزت رخصتی کی راہ تلاشنے کو ڈپلومیسی کا آغاز کرنا ہو گا۔ بصورتِ دیگر یونہی بھٹکتے رہو، بھٹکاتے رہو، گھومتے رہو۔

مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ فیصلہ کرنا کتنا جلد ضروری ہوتا ہے البتہ یہ معلوم ہے کہ آسمان نے آج تک چوتھا موقع کسی کو نہیں دیا۔ اپنی لاڈلی قوم "بنی اسرائیل" کو بھی نہیں۔۔

Check Also

Afghanistan Mein TAPI Mansooba

By Zafar Iqbal Wattoo