Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Subh Ki Pehli Kiran

Subh Ki Pehli Kiran

صبح کی پہلی کرن

پودوں میں نجانے مجھے کیوں جہاں سورج مُکھی کے پودے پر بہت سا پیار آتا ہے، وہیں ترس بھی آتا ہے۔ پیار اس لیے کہ ہمیشہ اپنا چہرہ روشنی کی طرف رکھتا ہے اور ترس اس لیے کہ زمین میں اس کی جڑیں چاہے کسی بھی سمت پھیلی ہوں وہ اپنا چہرہ روشنی کی جانب رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ بلاشبہ وہ طلوع آفتاب و غروب آفتاب کا منظر تو دیکھ لیتا ہے۔

لیکن سورج جاتے جاتے اپنے پیچھے اندھیروں کے جو لمبے سائے پھیلاتا چلا جاتا ہے، اُن سے تشکیل پانے والے منظر کو سورج مُکھی کے کسی پھول نے آج تک نہیں دیکھا۔ کتابِ زیست کو جہاں سے بھی کھول لو ماضی کے ابواب سورج کی مانند واضح اور روشن بن کر سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں۔ آج کچھ بیتے دور سے لکھنے بیٹھا تو سورج مُکھی کا خیال آ گیا۔

غالباً اس لیے کہ کچھ پودے انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اور کچھ انسان پودوں کے سمان بھی ہوتے ہیں۔ وہ جو بے چین، بے خبر اور ہجوم میں تنہا لڑکا تھا یہ اس کی اور میری کہانی ہے۔ میں نے اپنی ابتدائی عمر جہاں بسر کی وہ زندگی کا ایک نہایت محدود و محفوظ علاقہ تھا۔ وہ قدیم، روایت پسند، تغیر پذیر، عجیب و عزیز سوتی جاگتی دنیا تھی۔ کتاب ذات کو کھول کر پڑھا جائے کہاں ممکن ہے۔

اس کے اوراق تند شوریدہ سر ہواوں میں اتنی تیزی سے پلٹ رہے ہیں کہ کہیں کسی صفحے کا ایک لفظ، کسی ورق کی ایک سطر ہی پلے پڑ جائے تو غنیمت ہے۔ اس لڑکے اور میرے بیچ اتنا ہی فاصلہ ہے، جتنا صبح و شام کے درمیاں آ جاتا ہے۔ میرا اور اس کا ویسا ہی رشتہ ہے۔ جو سوچ کا آواز سے ہوتا ہے۔ سوچ کی سرحدیں نہیں ہوتیں، آواز حدود میں گرفتار رہتی ہے۔

آواز سوچ کے ساتھ چلے، کبھی ایسا ہوتا ہے، کبھی نہیں ہوتا۔ کبھی وہ میرے پاس ہوتی ہے، کبھی صدیوں کے فاصلے پر میں تو اسے بہت دور پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تھا، مگر اس لڑکے نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے، جو کہانی بھی نہیں ہے۔ وہ دکھ سکھ جو گئے زمانوں میں برتے ان کی حقیقت سے انکار ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ تو اب تک خون کے ساتھ رگوں میں رواں دواں ہیں۔

جبکہ وہ ماحول جس میں آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا، وہ آج ناقابل یقین حد تک اجنبی ہو چکا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ وہ لڑکا باقاعدہ ڈائری لکھا کرتا۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلتا اور لفظوں میں سانس لیتا۔ جذبوں کو پہچاننا ابھی اس نے کہاں سیکھا تھا۔ ہاں، وہ روز و شب، جو اس کے اندر ہی طلوع و غروب ہوتے وہ سورج مُکھی کی مانند ان کا حساب درج کرتا جاتا۔

یادوں کے اس مرقع میں جہاں محبتیں و شفقتیں ہیں، وہیں محرومیاں و مجبوریاں بھی ہیں۔ جس گھرانے میں آنکھ کھلی وہ مذہبی سادات گھرانہ تھا۔ آنگن میں اذانوں نے اجالے تھے دعاوں کے سویرے تھے، مگر طاقوں میں شرافت، امارت اور روایات کے بت بھی سجے ہوئے تھے۔ گھر میں اماں کا ہاتھ بٹانے کو ماسی آیا کرتیں۔ ان کا نام شاہدہ تھا۔ اپنے نام کے عین مطابق وہ میرے آنگن کی اک اک خوشی و غمی کی شاہدہ تھیں۔

صبح سویرے وہ آ جاتیں اور شام ڈھلے تک گھر کے سارے نظام سنبھالتیں سوائے ہنڈیا و کچن کے، اماں کھانا خود بنایا کرتیں، یہ وہ دور تھا، جب والد صاحب مالدار تھے اور ان کا کاروبار عروج پر تھا۔ شاہدہ بیبی کو میں خالہ پکارا کرتا تھا۔ خالہ نے مجھے بچپن سے ہوش سنبھالنے تک اپنی گود میں کھلایا۔ بھاگنے دوڑنے کی عمر آئی تو خالہ میرے پیچھے ہوتی اور میں گلیوں میں ان سے چھپتا چھپاتا اپنے ہم عمروں کے ساتھ بنٹے کھیلنے میں مگن رہتا۔

جب خالہ مجھے آن پکڑتیں تو بازو تھامتیں اور سیدھا گھر تک کھینچتے لے جایا کرتیں۔ اماں کو جب میری اس حرکت پر غصہ آتا تو جیسے ہی وہ مجھے مارنے کو بڑھتیں بیچ میں خالہ آ جاتی۔ وہ ڈھال بن کر کھڑی ہو جاتیں اور کہتیں" جانے دو آپا، ابھی چھوٹا ہے۔ میں سمجھاؤں گی تو سمجھ جائے گا" اماں کا غصہ ٹھنڈا پڑتا تو مجھے دیکھ کر بولتیں" دیکھ وعدہ کر تو آج سے بنٹے کھیلے گا ناں، ان آوارہ لڑکوں کے ساتھ بلا مقصد گلیوں میں گھومنے جائے گا"۔

میں ڈر کر وعدہ کر لیتا اور اگلے دن بھول جاتا۔ یہ روز کا معمول تھا۔ خالہ نے مجھے پکڑنا ہوتا اور اماں سے جاں بخشی بھی کروانی ہوتی۔ اب خیال آتا ہے کہ اماں بھی یہی چاہتی تھی کہ کوئی بیچ میں آ کر میرے اکلوتے سپوت کو میرے غصے سے بچا لیا کرے۔ اماں نے خالہ کے ہوتے مجھے کبھی نہیں مارا۔

زمانہ بدلتے وقت نہیں لگا، نجانے کب والد کا کاروبار ختم ہوا، کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کا مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ والد کچھ بتاتے نہیں تھے اور اماں اس موضوع پر ٹال مٹول کر دیتیں۔ وہ دن بھی آئے کہ اماں کو گھر چلانے کو سرکاری سکول میں بطور سائنس ٹیچر ملازمت کرنا پڑ گئی۔ والد نے کاروبار کے نقصان کو دل سے لگا لیا۔ وہ اس کے بعد بقیہ عمر کچھ نہ کر پائے۔

کچھ کرنے کو بچا بھی کیا تھا؟ سوائے ایک گھر اور اس میں رکھے فرنیچر، ٹی وی و فرج کے سب کچھ کاروباری نقصان کی تلافی میں بک چکا تھا۔ جب تین وقت کا کھانا دو وقت پر آیا یعنی صبح و رات بس، وہاں خالہ شاہدہ کی تنخواہ کہاں سے نکلتی۔ خالہ چلی گئی۔ اس کو اپنے بچے بھی پالنے تھے۔ وہ کسی اور کے ہاں ملازمت کرنے لگیں۔ اکثر یوں ہوتا کہ وہ اماں کو ملنے اور مجھے دیکھنے آ جایا کرتیں۔

زندگی کے دس بارہ سال انہوں نے اسی گھر میں صبح تا شام بتائے تھے۔ اماں بھی شاہدہ کو دیکھ کر خوش ہو جاتیں اور وہ دونوں گئے وقتوں کے قصے لے کر بیٹھ جاتیں۔ وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ خالہ کا آنا جانا متروک ہوتا گیا۔ ان کو دور کہیں اور ملازمت ملی، جس سے وقت نکالنا ممکن نہ رہا تھا۔ اماں صبح سکول جاتی۔ شام کو گھر کی صفائی ہوتی، پھر رات کے کھانے کی تیاری اور رات ڈھل جاتی تو اماں سو جاتیں۔

اس مشقت بھری زندگی نے اماں کو چپ لگا دی تھی۔ انہوں نے ساری عمر اسی سخت معمول میں بسر کر دی۔ اک دن گھر سے جب پہلا جنازہ اٹھا جو کہ والد کا تھا، اس دن خالہ شاہدہ سالوں بعد دیکھی۔ نجانے ان کو کس نے اطلاع پہنچا دی تھی۔ اکلوتا ہونے کے ناطے جنازے و کفن دفن کا انتظام مجھے ہی دیکھنا تھا۔ ایف اے پاس ہو چکا تھا۔ ہلکی مونچھیں نکل آئیں تھیں اور اس کے ساتھ ہی ذمہ داریوں کا بوجھ پہاڑ جتنا محسوس ہونے لگا تھا۔

جس دن والد کو دفنا کر واپس آیا میں بالکل نہیں رویا، رونا آتا ہی نہیں تھا، دل میں گرہ لگ چکی تھی۔ اندر نیل پڑ چکا تھا۔ خون تھم چکا تھا، بہاؤ رک چکا تھا۔ اس دن کے پانچ سال بعد جب اماں کا انتقال ہوا ٹھیک وہی کچھ بیتا۔ اماں کو دفنا کر آیا تو رونا آیا ہی نہیں، ملنے جلنے والے مجھے غور سے دیکھتے، تسلی دیتے، رسمی جملے ادا کرتے اور میں چپ چاپ سنتا رہتا۔

دل کی گرہ پر گرہ لگ چکی تھی۔ پیچ بہت پیچیدہ ہو چکا تھا۔ سانس تو آڑے جیسی چلتی تھی، مگر بہتا کچھ نہیں تھا۔ خالہ شاہدہ کو جب کسی طرح اطلاع ملی اماں کو گزرے ہفتہ بھر گزر چکا تھا۔ سالوں بعد خالہ کو دیکھا۔ بڑھاپے نے چہرے پر جھڑیاں ڈال دی تھیں۔ جس دن خالہ موت کی خبر سن کر گھر آئی میں اکیلا تھا۔ نجانے کیوں اس کو دیکھتے ہی میرے آنسو بہہ نکلے۔

خالہ نے مجھے گلے سے لگایا تو اس کی دھار میرے آنسووں میں ڈھل گئی، اس دن جی بھر کر رویا، نہ خالہ کے آنسو تھمتے تھے نہ میرے، وہ آخری دن تھا جب خالہ کو دیکھا۔ اس کے بعد خالہ کبھی نہیں ملی، اک بار میں ان کا پتا کرتے ان کے پرانے گھر گیا تو معلوم ہوا کہ وہ یہاں سے کب کی جا چکیں، کرائے کا مکان تھا بدل لیا۔ کیوں بدل لیا اور کہاں گئیں کسی سے معلوم نہ ہو سکا۔

پتا نہیں زندہ ہیں یا نہیں۔ ہیں تو کیسی ہیں۔ وقت نے کیسے کیسے رشتوں پر خاک ڈال دی ہے۔ وقت کی یہی خوبصورتی ہے کہ وہ جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے اور یہی المیہ بھی آنکھیں کیا کچھ نہیں دیکھتیں، دشت و صحرا بھی اور گل و گلزار بھی۔ لمحوں کی انگلی تھام کر چلا تو لو دیتے ہوئے چراغوں کا اجالا بھی دیکھا اور اور بجھتے ہوئے چراغوں کا دھواں بھی۔

میں آج بھی ایک جگہ جامد اپنا رُخ طلوع تا غروب آفتاب کی سمت کیے کھڑا ہوں۔ جہاں سورج مُکھی کے پودے پر بہت سا پیار آتا ہے وہیں ترس بھی آتا ہے۔ وہ طلوع آفتاب و غروب آفتاب کا منظر تو دیکھ لیتا ہے، لیکن سورج جاتے جاتے اپنے پیچھے اندھیروں کے جو لمبے سائے پھیلاتا چلا جاتا ہے، اُن سے تشکیل پانے والے منظر کو سورج مُکھی کے کسی پھول نے آج تک نہیں دیکھا۔

یا دیکھا ہے تو وہ اس منظر کو آنکھیں موندے اپنے حافظے سے نکالنے کی کوشش میں رہتا ہے اور صبح کی پہلی کرن کے ساتھ کھِل اُٹھتا ہے۔

Check Also

Basham Dehshat Gardi, Reyasti Idaron Par Uthte Sawalaat

By Nusrat Javed