Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Status Gap (2)

Status Gap (2)

سٹیٹس گیپ (2)

میں سارے حساب چکانا چاہتا تھا اور زندگی اپنے بچوں کے ساتھ نئے سرے سے شروع کرنا چاہتا تھا۔ بچوں کو لے کر ڈسکہ منتقل ہو گیا۔ نوکری چھُوٹ گئی کہ وہ سیالکوٹ شہر میں تھی اور میں کرنے سے قاصر تھا۔ جو جمع پونجھی مکان بیچ کر اور قرض لوٹا کر بچی تھی وہ میں بچوں پر اور گھر چلانے پر لگا کر وقت گزارتا رہا۔ پیسے پانی کی طرح لگتے گئے۔ جب انسان ڈپریشن میں ہو اور بیروزگار ہو چکا ہو تو اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ بچوں کو سنبھالنے کو آیا ملتی ہی نہیں تھی اور بچے میرے بنا رونے لگتے تھے۔

وہ ڈر چکے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ بابا بھی باہر جائیں گے تو شاید واپس گھر نہ آئیں۔ ان کے ننھے دماغ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ بچوں کو سنبھالنے والی آیا اس لیے نہ ملی کہ کوئی عورت اس گھر میں آنے کو تیار نہ تھی جہاں اکیلا مرد رہتا ہو۔ ہمارا معاشرہ ہی ایسا ہے۔ حتیٰ کہ میری ماں کی عمر کی خواتین نے کہا کہ باؤ توں شریف ہوویں گا پر زمانہ تے شریف نئیں۔ چھ ماہ یونہی گھر میں ہاوس اریسٹ صورتحال میں گزرے۔ نہ کوئی کام کر سکتا تھا نہ کوئی نوکری۔ پیسے لگتے گئے۔ چھ ماہ بعد میرے پاس دس لاکھ بچا ہوا تھا اور بس۔

سن 2016 کے مڈ میں جولائی میں مجھے میری موجودہ بیگم ملی۔ اس کو میرے سارے مالی و جذباتی حالات اچھی طرح معلوم تھے۔ خود بتا چکا تھا۔ اس نے شادی کے بعد میرے گھر کو اور بچوں کو ایسے سنبھالا جیسے ان کی سگی ماں ہو اور میری بھی۔ یہ مجھ سے عمر میں دس سال چھوٹی ہے۔ اس کے باوجود اس نے انتھک محنت کر کے بچوں کو پالا ہے۔ ان کی ماں بن کے دکھایا ہے شاید ایسی ماں کہ سگی ماں بھی کیا ہوتی ہو گی۔

بچے اس کے ساتھ ایسے اٹیچ ہوئے کہ اس کو ماما کہتے ہیں اور ان کے نزدیک ان کی اور کوئی ماما نہیں ہے۔ اب وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کیا ہوا تھا اور ان کو جنم دینے والی ماں کا کیا ہوا مگر کہتے ہیں کہ محبت فاتح عالم ہے لہٰذا جس نے انہیں محبت دی وہی ان کی اماں بنی ہے۔ دوسری شادی ہوئی تو مجھے ذہنی سکون ملا۔ اب میں جاب کرنے کے قابل ذہنی و جسمانی طور پر ہو چکا تھا۔ بیگم نے مجھے حوصلہ دیا اور یوں مجھے یونیورسٹی آف لاہور میں جاب ملی۔

میں یونیورسٹی کے سکول آف کرئیٹیو آرٹس میں بی ایس فلم اینڈ ٹی وی اور ایم فل ماس کمیونیکیشن کو فوٹوگرافی پڑھانے لگا۔ اس سلسلے میں مجھے لاہور شفٹ ہونا پڑا۔ میں اکیلا پانچ دن یونیورسٹی کے پاس واقع ویلنشیا ٹاؤن کے ایک کمرے کے فلیٹ میں رہتا۔ ویک اینڈ پر واپس ڈسکہ اپنے گھر چلا جاتا۔ لگ بھگ ایک سال یہی سلسلہ رہا اور بیگم گھر و بچوں کو سنبھالتی رہی۔

یہ جو کرائے پر گھر تھا یہ بالائی منزل تھی۔ اس کا مالک اینٹی ٹیررسٹ فورس کا انسپکٹر تھا۔ اس سے مجھے بالائی پورشن کرائے پر ملا تھا۔ گراؤنڈ پورشن جو تھا یہ نجی عقوبت خانہ تھا۔ اس کا انکشاف مجھے یہاں منتقل ہونے کے بعد ہوا۔ وہاں راتوں کو دہشت گرد یا اسی قماش کے لوگ پولیس لاتی اور ان کو تشدد کا نشانہ بناتی۔ ملزموں کی چیخ و پکار کی آوازیں اوپر میرے پورشن تک آتیں اور طبیعت بوجھل ہو جاتی۔

جب پہلی بار ایسا ہوا اور مجھ پر منکشف ہوا کہ یہاں چل کیا رہا ہے تو میں نے مالک مکان انسپکٹر کو جا لیا کہ یہ کیا ہے؟ اس نے مجھے کہا "شاہ صاحب۔ آپ یہاں مکمل محفوظ ہیں۔ کچھ برداشت کر لیں۔ ورنہ آپ جا سکتے ہیں۔ پیسے آپ کو لوٹا دیتا ہوں آپ کوئی اور گھر دیکھ لیں۔ مگر مشورہ یہی ہے کہ آپ شریف بندے ہو۔ ہفتے میں پانچ دن تو لاہور ہوتے ہو۔ فیملی یہاں ہوتی ہے اور یقین مانو اس سے محفوظ گھر آپ کی فیملی کے لیے نہیں ہو سکتا جس پر ہماری ہر وقت نظر رہتی ہے۔

یہاں چڑی بھی پر نہیں مار سکتی۔ راستہ آپ کے پورشن کا بالکل الگ ہے۔ آپ کا گراؤنڈ پورشن سے نہ راستہ ملتا ہے نہ کچھ اور۔ باقی آپ خود سوچ لیں"۔ اس کے سمجھانے پر بیگم نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ آپ اپنی جاب پر فوکس کریں میں برداشت کر لوں گی۔ یہ محفوظ مکان ہے اس لیے یہیں ٹھیک ہے۔ اس نے ایک سال اس مکان میں بہت کچھ برداشت کیا اور میں نوکری میں لاہور لگا رہا۔ بلآخر سال بعد کچھ مالی حالات بھی بہتر ہوئے تو میں نے فیملی لاہور منتقل کر لی۔

یہ ساری کتھا سنانے کا مقصد یہ تھا کہ کبھی اپنے بھی غیر ہو جاتے ہیں اور کبھی غیر بھی اپنے بن کر آن ملتے ہیں۔ میں نے گزشتہ تحریر میں اپنی بہن کی شادی کا قصہ لکھا ہوا ہے جس کا سبق یہی تھا کہ انسان کو رشتہ بناتے اگلے انسان کی قابلیت پر یقین رکھتے لائف انوسٹمنٹ کرنا چاہئیے ناں کہ اس کے موجودہ مالی حالات کو جج کرتے ہوئے رشتہ بنایا جائے۔ جب میری موجودہ بیگم نے مجھ سے رشتہ بنانے کی حامی بھری تو اس وقت اس کے پیش نظر بھی صرف میں اور میری قابلیت تھی وگرنہ تو میں کنگال اور بیروزگار تھا وہ بھی بچوں کے ساتھ۔

آج جب زندگی ڈھرے پر آ چکی ہے۔ بچے اچھے سکول میں پڑھ رہے ہیں۔ گھر ویسا ہی بن چکا ہے جیسا خوشحال فیملی کا گھر ہوتا ہے۔ دولت بھی ہے شہرت بھی ہے۔ سب کچھ مل چکا ہے۔ دولت کو میں ہاتھ کی میل سمجھتا ہوں اس کی وجہ کہ میں نے اس کا آنا جانا بہت دیکھا ہے۔ اب پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ بچوں کو بھی بتاتا ہوں کہ زمین پر سونا پڑا تو مایوس نہ ہونا۔ وقت جیسا بھی ہو گزر جاتا ہے۔ بس لگن اور جہد مسلسل شرط ہے۔ زندگی جہد مسلسل کا ہی نام ہے۔

اور بیگم جو میری اصل معنوں میں شریک حیات ہے اس پر مزاح لکھتا ہوں کیونکہ وہ خود بھی محظوظ ہوتی ہے۔ جس انسان نے آپ کی غربت میں بھی آپ کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا ہو وہی آپ کے اچھے وقت میں ہر قسم کی سہولت کا حقدار بھی ہوتا ہے۔ اسی واسطے میرے لیے وہ کائنات میں سب سے زیادہ عزیز ہستی ہے اور وہ ہر طرح کی سہولیات ڈیزرو کرتی ہے۔ باقی سب تو برائے مزاح چلتا ہی رہتا ہے۔ یہی نوک جھونک تو زندگی کی رونق ہے اور میرے جیسے انسان جو بہت کچھ سہتے یہاں تک پہنچتے ہیں ان کی رونق ہی بیگم و بچوں کی چوں چاں ہوتی ہے۔

جو انسان آپ کے لیے اپنی زندگی وار دے اس کے لیے میں بھی ہر وقت ہر طرح سے حاضر ہوں۔ ہائے وہ گزرا وقت جو انسان کو نچوڑ جاتا ہے۔ زندگی کے بحر بیکراں میں غوطے کھاتا انسان اگر ساحل کنارے لگ ہی جائے تب بھی اندر کے زخم جلد کہاں بھرتے ہیں۔ میں تو برائے دلداری و دل بہلانے کو زندگی کے خاکے میں رنگ بھرتا ہوں۔ آج سب کچھ ہے پھر بھی حضرت جون یاد آ جاتے ہیں۔

اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی؟

پوششِ برگ و گُل تو کیا، جسم پہ چھال بھی نہیں

غارتِ روز و شب کو دیکھ، وقت کا یہ غضب تو دیکھ

کل تو نڈھال بھی تھا میں، آج نڈھال بھی نہیں

نوٹ: جتنا میں اپنی ذاتی زندگی سے بتانا مناسب سمجھتا تھا اتنا بتا چکا ہوں۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں لہٰذا ذاتی سوالات سے گریز کیجئے گا۔ بس آپ کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ پلوٹو نے کہا تھا

۔ There is always a tragedy or series of tragedies behind every artist

Check Also

Zarkhez Zameen Ke Zarkhez Log

By Muhammad Saqib