Thursday, 16 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Status Gap (1)

Status Gap (1)

سٹیٹس گیپ (1)

سن 2016 میری زندگی کا مشکل ترین سال تھا۔ جنوری میں میرا دس سالہ ازدواجی تعلق اختتام کو پہنچا۔ سابقہ بیگم نے بچوں کو اپنی رضا سے میرے حوالے کیا۔ بچے چھوٹے تھے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ماں بچوں کو نہیں چھوڑ سکتی تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے۔ عورت کے کئی روپ ہیں۔ وہ سنگدل ہے تو پھر سنگدل ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے نرم دل نہیں بنا سکتی۔ یہ دو طرفہ پسند کی شادی تھی۔

اس کے ختم ہونے میں کئی عوامل کار فرما تھے لیکن جو سب سے بڑا عمل تھا وہ ہم دونوں کا سٹیٹس گیپ تھا۔ جس کو وہ بخوبی جانتی تھی مگر وہ کہتے ہیں ناں محبت اندھی ہوتی ہے۔ اس وقت تو روکھی سوکھی کھا کر ساتھ جینے مرنے کی قسمیں بھی کھا لی جاتی ہیں۔ اصل زندگی جب شروع ہوتی ہے تب آنکھ کھُلتی ہے۔ وہ کراچی سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کے والد صاحب امیر انسان تھے۔ اس کی اب تک کی زندگی ناز و نخر میں گزری تھی۔

سن 2005 میں اس کے پاس اپنی نئی نویلی سوزوکی کلٹس ہوتی تھی جس پر وہ کراچی یونیورسٹی آتی جاتی تھی۔ میں سیالکوٹ جیسے چھوٹے شہر میں ایک انٹرنیٹ سروس پروائیڈر کمپنی سائبر نیٹ میں کسٹمر سپورٹ سروسز میں نوکری کرتا تھا۔ سن 2005 میں میری تنخواہ ساڑھے سات ہزار روپے تھی۔ یہ فون کالز پر کمپنی کلائنٹس کو انٹرنیٹ کنیکشن میں پیش آنے والی دقت کے حل کی نوکری تھی۔ اکثر نائٹ شفٹ ہوتی۔ میں گھر والوں سے کرکٹ میچ کے بہانے نکلتا۔ تنخواہ ظاہر ہے بہت قلیل تھی اس میں گھر دینا اور پھر اپنے لئے بھی پورا ماہ گزارا کرنا ناممکن ہو جایا کرتا۔

والد صاحب طویل بیماری کے بعد انتقال کر گئے تو ان کے علاج کی مد میں اٹھنے والے اخراجات ختم ہو گئے۔ میں ہر ماہ لاہور سے کراچی کی مڈ نائٹ فلائٹ لیتا۔ لاہور سے کراچی نائٹ سروس میں تب چانس پر آخری لمحوں میں تین ہزار یا پینتس سو کی ٹکٹ مل جایا کرتی تھی۔ پی آئی اے کا جہاز رات ڈھائی بجے کراچی لینڈ ہو جاتا۔ چھ گھنٹے ائیرپورٹ پر چائے پیتے اور اونگھتے گزرتے۔ جیسے ہی نیند آنے لگتی اور آنکھ لگتی مچھر کاٹنا شروع ہو جاتے۔

اہلیان کراچی تو جانتے ہی ہیں مگر جو نہیں جانتے ان کو بتا دوں کہ کراچی کا مچھر، مچھر نہیں مگرمچھر ہے۔ ایسا کاٹتا ہے جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ صبح آٹھ بجے تک یونہی چائے نوشی اور مچھر ماری میں وقت گزار کر ٹیکسی لیتا اور کراچی یونیورسٹی پہنچ جاتا۔ میری سابقہ بیگم یونیورسٹی سے نکلتی اور ہم اس کی گاڑی میں بھری دوپہر کہکشاں مارکیٹ یا کلفٹن سمندر کنارے چلے جاتے۔ عاشقی کوٹ کوٹ کر بھری ہو تو ابل ابل پڑتی ہے مگر گرمی کا احساس نہیں ہونے دیتی۔

اک بار یوں ہوا کہ ان دنوں کراچی میں چند بگڑے ہوئے اعلیٰ خاندانوں کے بچوں کا گروپ برائے FUN لوگوں کی کاریں بزور اسلحہ چھینتا اور وہ چند میل ڈرائیو کر کے گاڑی کو یونہی سڑک کنارے چھوڑ جایا کرتے۔ یہ کلفٹن اور اطراف کے علاقوں میں معمول کی وارداتیں بن چکی تھیں۔ میرے سابقہ سسر صاحب پولیس میں اس وقت ڈی ایس پی تھے بعد اذاں ایس ایس پی عہدے سے رئیٹائرڈ ہوئے۔ اک بھری گرم دوپہر کو ہم کلفٹن جا رہے تھے۔ ڈی ایس پی صاحب دن میں ناکہ لگائے خود عین سڑک کے بیچ کھڑے تھے۔

گاڑی چلاتے اس کے منہ سے بس ایک ہی لفظ نکلا "ابو"۔ میرے پسینے چھوٹ گئے میرے منہ سے نجانے کتنی بار نکلا "ابو۔ ابو۔ ابو"۔ گھبراہٹ میں اس نے عین سڑک کے بیچ ون وے ہی کار یو ٹرن لے کر واپس موڑ دی مگر صاحبو دیر ہو چکی تھی۔ گاڑی ڈی ایس پی صاحب بخوبی پہچان چکے تھے کیونکہ ان کی ہی تھی۔ بس اس دن سے ہی راز آشکار ہوا تو وہ بھی اقرار جرم کر بیٹھی اور پولیس آفیسر کے سامنے ڈٹ بھی گئی۔ ایس ایس پی صاحب کی گھر میں نہ چل سکی اور یوں سلسلہ نکاح تک پہنچا۔

شام کو اس نے مجھے ائیرپورٹ اتار کر گھر چلے جایا کرنا۔ شام 4 بجے کی واپسی فلائٹ لیتا اور لاہور پہنچ جاتا۔ پھر بس پکڑ کر سیالکوٹ پہنچ جاتا۔ کراچی دوروں کی سب ٹکٹیں میں بطور یادگار محبت اپنے لاکر میں سنبھال کر رکھیں تھیں۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ اس وقت ایسی کوئی امید نہیں تھی کہ یہاں شادی ہو جائے گی۔ امی کو شک تو ضرور تھا مگر ہلکا پھلکا۔ ایک دن میں سویا ہوا تھا۔ اماں نے میرے دراز کو پتا نہیں کیسے کھول لیا۔ اس میں سے محبت کی یادگاروں سمیت پی آئی اے کی ٹکٹیں نکل آئیں۔

بس پھر پول کھل گیا تو میں بھی ڈٹ گیا۔ پیار کیا تو ڈرنا کیا۔ اکلوتا بیٹا تھا اماں کیا کرتی۔ آخر ماننا ہی پڑا۔ خاندان نے شادی کا بائیکاٹ کر دیا کہ میرے خاندان کو سادات سے باہر رشتہ کرنا منظور ہی نہیں تھا۔ دوسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ مجھ سے عمر میں تین سال بڑی تھی۔ ظاہر ہے لڑکی بڑی عمر کی ہو تو ہمارے ہاں خاندان ویسے ہی نہیں راضی ہوتا۔ سید فیملیز کا یہ ایک فرسودہ نظام ہے۔ بہرحال، مقدر میں لکھا تھا خاندان کے بائیکاٹ کے باوجود شادی ہو گئی۔

اس کے بعد دس سال بہت سے مسائل چلتے رہے جن میں پہلا مسئلہ تو سٹیٹس گیپ ہی تھا۔ بلآخر حالات ان دس سالوں میں ایسی نہج پر آ گئے کہ راہیں جدا کرنے کے سوا کوئی راہ نہیں بچی تھی۔ والدہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ بہن شادی کر کے اپنے گھر جا چکی تھی اور ہم دونوں گھر میں اکیلے ایک دوسرے سے الجھتے رہتے۔ نہ کوئی معاملہ سلجھانے والا بڑا موجود تھا نہ کوئی سمجھانے والا۔

یوں نہیں کہ ساری غلطی اسی کی ہو۔ میں اس بات کا قائل ہی نہیں کہ سارا قصور یکطرفہ ہوتا ہے۔ اپنا قصور بھی ماننا چاہئیے۔ میرا بھی ہے۔ تالی دونوں ہاتھ سے ہی بجا کرتی ہے۔ شاید میرا قصور اتنا نہیں تھا اور اس کا حصہ زیادہ تھا مگر جو ہونا تھا وہ ہونا ہی تھا۔ اب جب وہ میری زندگی کا حصہ نہیں مجھے آج بھی اس کا احترام ہے کہ میرے بچوں کی ماں ہے۔ آج تک میں نے کبھی اس کے بارے لکھا نہ کبھی کوئی گلہ کیا۔ دس سال ایک چھت تلے گزارے ہوئے ہیں اور جانے والے سے گلہ چی معنی؟

سن 2016 میں میں ڈپریشن بھگت رہا تھا۔ بچوں کو لے کر سیالکوٹ کا آبائی گھر چھوڑ کر کرائے پر ڈسکہ منتقل ہو چکا تھا۔ آبائی گھر میں نے اونے پونے جلدی میں بیچ دیا۔ اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ آس پڑوس والے بچوں کو ہمیشہ یاد دلواتے رہتے کہ تمہاری ماما کہاں ہیں اور کیوں گئیں؟ دوم یہ کہ میرا اب اس گھر سے دل ہی اٹھ گیا تھا۔ جہاں قدم قدم پر یادیں بکھریں ہوں وہاں آپ کبھی ماضی بھول کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

میں نے گھر بیچ دیا۔ وہ چھوٹا سا گھر تھا چالیس لاکھ میں بک گیا۔ شاید اچھی قیمت پر بک جاتا مگر مجھے جلدی تھی اور مجھے وہاں سے نکلنا تھا۔ زندگی کو آگے بڑھانا تھا۔ اسی سٹاپ پر رک نہیں سکتا تھا۔ منو بھائی کی کیا خوبصورت نظم ہے۔

جیہڑا جتھے رک جاندا اے

اوسی تھاں تے مُک جاندا اے۔

اور سوم وجہ یہ کہ اب سیالکوٹ شہر سے دل بھر چکا تھا۔ کوئی رہا ہی نہیں تھا۔ والدین گزر گئے۔ بہن اپنے گھر چلی گئی اور ازدواجی تعلق بھی اختتام کو پہنچا۔ اس شہر میں اب دل گھبراتا تھا۔ اس مکان سے ملنے والے پیسوں سے آدھی رقم بیس لاکھ مجھے اس مد میں اتارنا تھے جو مسلسل والدہ کی بیماری و ڈائلاسس کی صورت قرض چڑھتا گیا تھا۔ یہ قرض بینک لون تھا کچھ دوستوں سے لیا ہوا اور کچھ اپنی کمپنی سے لیا ہوا۔

Check Also

Shiddat Pasandi

By Mubashir Aziz