Wednesday, 01 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Sindh Police

Sindh Police

سندھ پولیس

جو احباب حیدرآباد تا قاضی احمد بائی پاس پر سفر کرتے ہیں، وہ شاید جانتے ہوں اور جو نہیں جانتے ان کی اطلاع واسطے عرض کر دوں کہ جیسے ہی حیدرآباد سے پنجاب کی سمت آتے انڈس ہائی وے لیتے ہیں۔ اس کے اختتام پر ٹول پلازہ آتا ہے اور ٹول پلازے کے ساتھ ہی سندھ پولیس کی چوکی ہے۔ اس چوکی پر سندھ پولیس کا ایک تُوت رامی سپاہی کھڑا ہوتا ہے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ اس "لال بادشاہ" سے جان چھڑا کے نکل جائیں۔

دُبلا پتلا، لمبا قد، ہلکی بے ہنگم داڑھی، اپنے سائز سے کافی کھُلی پولیس کی وردی میں ملبوس اور چہرے پر ہنسی سجائے وہ آپ کو ملے گا۔ آپ سے ہنس کے شناختی کارڈ مانگے گا۔ آپ کو لگے گا کہ کیسا خوش اخلاق پُلسیا ہے، بس چیک ہی تو کرنا چاہ رہا ہے کہ شناخت کیا ہے۔ جیسے ہی آپ اسے ہنستے ہوئے اپنا شناختی کارڈ تھمائیں گے وہ یکدم موڈ بدل کر تُوت رامی بن جائے گا۔ ہنسی غائب ہو جائے گی۔ بے دید ہو کر آنکھیں پھیلائے گا اور کرخت لہجے میں بولے گا۔

"گاڑی کی روڈ انشورنس دکھا۔ ساتھ صوبہ منتقلی کا این او سی دکھا"۔

آپ چاہے لاکھ کہیں کہ بھائی نہ کرو۔ مگر وہ ڈٹ جائے گا اور اونچا اونچا بولے گا " سائیں، لال بادشاہ کھڑا ہے اِدھر۔ کاغذ پورے کر ورنہ گاڑی لگا سائیڈ پر"۔ یہ دیکھ کر میں نے گاڑی کی انشورنس موبائل پر نکالی اور موبائل اسے تھماتے کہا " یہ لو انشورنس"۔ مجھے یقین تھا کہ لال بادشاہ انگریزی نہیں پڑھ سکتا۔ اس کو روڈ انشورنس اور گاڑی کی انشورنس کا فرق معلوم بھی نہیں ہوگا۔ بالکل وہی بات ہوئی، مگر اس نے میرا موبائل اپنی جیب میں ڈال لیا اور بولا

"گاڑی سائیڈ پر لگا۔ انشورنس دکھا دی مجھے صوبہ منتقلی کا این او سی دکھا"۔

یہ رامی پن دیکھ کر میں نے اسے کہنا چاہا کہ لال بادشاہ ایسا این او سی ان گاڑیوں کے لیے ہوتا ہے۔ جو نئی نکور ڈلیوری پر دوسرے صوبے جا رہی ہوں۔ رجسٹرڈ گاڑیوں کے لیے یہ قانون نہیں ہے۔ مگر وہ میرا شناختی کارڈ اور موبائل لے کر چل دیا اور بولا " لال بادشاہ کو قانون پڑھاتا ہے؟ گاڑی سائیڈ پر لگا"۔

میرے ساتھ اسمار بیٹھا تھا، جو منسٹری آف ڈیفنس کے ایک اہم ادارے کے لیے کام کرتا ہے اور اس کے سرکاری کارڈ پر آئی ایس آئی کا مونو لگا ہے۔ وہ کارڈ کبھی نہیں دکھاتا مگر اس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ مجھے بولا سر جی یہ کیا کر رہا ہے۔ وہ گاڑی سے نکلا اور اپنا کارڈ اسے دکھاتے بولا " کیا مسئلہ ہے تمہیں؟"۔

صاحبو۔ لال بادشاہ نے کارڈ دیکھا اور انتہائی کرخت ہوتے بولا " اب بلا اُن کو۔ وہ آئیں گے تو تُو جائے گا"۔ اسمار یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے فون نکالا اور کسی کو ملانے لگا۔ مجھے سمجھ آ چکی تھی کہ لال بادشاہ کیا چاہتا ہے۔ میں نے اسمار کو کال ملانے سے منع کیا کہ کیا چھوٹی سی بات پر کسی افسر کو زحمت دینی اور خوامخواہ فیور لینی۔ دو سو روپے کی بتی بنا کر لال بادشاہ کی ہتھیلی میں رکھے " لال بادشاہ سائیں چائے پی اور ٹھنڈا ہو جا"۔

لال بادشاہ نے بنا دیکھے وہ پیسے اپنی ڈھیلی پینٹ کی جیب میں ڈالے اور شناختی کارڈ و موبائل واپس کرتے بولا" لال بادشاہ پیار سے سمجھتا ہے، سائیں لال بادشاہ کو کوئی تڑی لگائے یہ نہیں ہو سکتا۔ پیار والی بات کیا کرو۔ چلو جاؤ"۔

وہاں سے نکلے تو اسمار اس بات پر ایک گھنٹہ ہکا بکا ہی رہا کہ اس نے "اُن" کو گھاس نہیں ڈالی یہ کیسے ہو سکتا، آج تک ایسا نہیں ہوا۔ میں اسے تسلی دیتا رہا کہ اتنا نہ سوچو اس نے یو این کو بھی گھاس نہیں ڈالی وہ صرف قائداعظم کو گھاس ڈالتا ہے۔ آپ جب وہاں سے گزریں تو لال بادشاہ کے روکنے پر گاڑی سائیڈ سے نکال کر لے جائیں۔ اس نے صرف پیسے لینا ہیں اور دو تین سو روپے کے چکر میں وہ آپ کو گھما کے رکھ دے گا۔

آخر میں سندھ پولیس کو خراج تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ یہ لال بادشاہ (اس کا اصل نام شاید کچھ اور ہو وردی پر مینشن نہیں تھا) جو بھی ہے مجھے یقین ہے کہ سندھ کے ترقیاتی نظام کو دیکھتے ہوئے یہ بھی ترقی پا کر بہت اوپر جائے گا۔

Check Also

Batti On Karen

By Arif Anis Malik