Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Mehdi Bukhari/
  4. Shahab Nama

Shahab Nama

شہاب نامہ

خدا بخشے قدرت اللہ شہاب بڑی خوبیوں کے آدمی تھے، تین سربراہان مملکت کے سیکرٹری کی حیثیت سے وہ ہمارے قومی زوال کے قریب ترین تماشائی ہی نہیں، جزو تماشا بھی تھے، ان کے مزاج میں بے حد لچک تھی، غلام محمد جیسا معذور اور نیم دیوانہ ہو یا اسکندر مرزا جیسا عیش پسند یا ایوب خاں جیسا خود پسند، وہ سب کے اعتماد پر پورے اترے۔

ان آمروں اور جمہوریت کے دشمنوں کو پوری سول سروس میں قدرت اللہ شہاب ہی قابل التفات نظر آئے کہ وہ یکے بعد دیگرے انہیں اپنے قرب سے نوازتے رہے، بس ایک یحیی خان سے ان کی نہ نبھ سکی، جس کا سبب یحیی خان تھے نہ خود قدرت اللہ شہاب، بلکہ ایک تیسرے صاحب جنرل پیرزادہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور یحیی خان کے مزاج میں مداخلت کرے۔

یحیی خان کے دور حکومت کا مختصر عرصہ شہاب صاحب نے خود اختیاری جلاوطنی میں بسر کیا۔ وہ لندن میں پناہ گزین رہے۔ یونیسکو سے دو سو ڈالرز ماہ وار ملتے تھے۔ لیکن جب عنان اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ آئی تو شہاب صاحب دوبارہ "بندہ بارگاہ سلطان" بن گئے۔ اب کے وہ صرف تماشائی تھے، جزو تماشا نہ تھے، جنرل ضیاء الحق راج سنگھاسن پر بیٹھے۔

تو انہوں نے بھی قدرت اللہ شہاب کو کاروبار حکومت میں شریک کرنا چاہا، لیکن یہ وہ زمانہ تھا کہ موصوف دنیا کی محفلوں سے اکتا چکے تھے، اس لیے انہوں نے گوشہ نشینی میں عافیت دیکھی، آخر شہاب صاحب میں کوئی تو خاص الخاص قسم کی خوبی ہوگی، جس کی بناء پر وہ ایک دو نہیں، اکٹھے پانچ سربراہان مملکت کے منظور نظر رہے اور یہ سربراہ وہ تھے۔ جن میں سے ہر ایک نے اپنے سے پہلے سربراہ کا تختہ الٹا تھا۔

جو لوگ "شہاب نامہ" کو کتاب الواقعات سمجھ کر پڑھیں گے، وہ کچھ زیادہ خوش نہیں ہوں گے، کیونکہ انہیں بے شمار واقعات افسانوی نظر آئیں گے، لیکن جو لوگ اسے ناول سمجھ کر پڑھیں گے وہ مصنف کو اس بات کی داد دیں گے کہ اس نے طلسم ہوش ربا جیسی داستان تخلیق کی ہے۔ شہاب صاحب نے دیباچے میں اس کتاب کے لکھے جانے کی جو وجوہ بیان کی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔

"بعض مفروضوں کی بناء پر میرے ماتھے پر کچھ ایسے کلنک کے ٹیکے لگ چکے ہیں، جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں، مثلا میرے محترم اور مہربان بزرگ ابو الاثر حفیظ جالندھری نے کسی شاعرانہ موڈ میں کہا تھا

جب کہیں انقلاب ہوتا ہے

قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے​

اس شعر کا بہت چرچا ہوا اور یہ تاثر دیا گیا کہ وطن عزیز میں"انقلاب" کی آڑ میں جتنی غیر جمہوری کاروائیاں ہوتی رہی ہیں، ان سب میں میرا کچھ نہ کچھ ہاتھ تھا" اس اقتباس کے پیش نظر کہا جاسکتا ہے کہ "شہاب نامہ" دراصل ایک بیان صفائی ہے۔ جس میں"ملزم" نے اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم پر جو الزامات عام طور پر عائد کیے جاتے ہیں۔

ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انہوں نے پاکستان رائٹرز گلڈ قائم کرکے ادیبوں کو ایوب خانی مارشل لاء کے قدموں میں لا بٹھایا، ادبی انعامات اور تفریحی دوروں کے سبز باغ دکھا کر ادیبوں کو حکومت کی محاسن شماری کے کام پر لگا دیا، اس سے بعض ادیبوں کو چھوٹے چھوٹے فوائد ضرور حاصل ہوئے، لیکن اس کاروبار کا خالص منافع صرف قدرت اللہ شہاب کے حصے میں آیا۔

حکومت کی نظر میں ان کا وقار بڑھا، سول سروس میں انہیں ایک امتیازی حیثیت حاصل ہوئی، ان کی ایک جنبش ابرو پر سینکڑوں ادیبوں کا حکومت سے غیر مشروط وفاداری کا اعلان آخر کوئی معمولی کارنامہ تو نہیں تھا۔ گلڈ کو پہلے ہی دن سے شک وشبہ کی نظر سے دیکھا گیا، جس کی فوری وجہ یہ تھی کہ قدرت اللہ شہاب سمیت جن آٹھ ادیبوں کے دستخطوں سے ادیبوں کا کنونشن بلانے کا اعلان نامہ جاری ہوا تھا۔

ان میں سے ایک (ضمیرالدین احمد) کے سوا باقی سب سرکاری ملازم تھے اور یہ ایک صاحب بھی اعلان نامے پر دستخط کرنے کے بعد غائب ہوگئے، ایک ایسے زمانے میں جب انجمنوں اور اداروں پر طرح طرح کی پابندیاں عائد تھیں، سرکاری ملازموں کی طرف سے کسی نئے ادارے کے قیام کی کوشش کا مطلب یہ تھا کہ "گلڈ" بھی ایک سرکاری منصوبہ ہے۔

شہاب صاحب نے "شہاب نامہ" میں اعتراف کیا ہے کہ گلڈ نے ادیبوں کی فلاح وبہبود کے لیے جو منصوبے بنائے تھے، وہ سب ناکام ہوگئے، لیکن گلڈ کا اصل اثاثہ عزت نفس کا وہ احساس ہے۔ جو اس کے ذریعے ادیبوں میں پیدا ہوا، حالانکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ گلڈ کی وجہ سے ادیبوں کی ایک بڑی تعداد عزت نفس کے احساس ہی محروم ہوگئی، ادیبوں کی خرید وفروخت کا کام جس بڑے پیمانے پر ہوا۔

اس کی پہلے سے کوئی مثال موجود تھی نہ بعد میں سامنے آئی، لیکن شہاب صاحب اس کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ شہاب نامہ میں وہ سارا الزام بریگیڈئیر ایف آر خان پہ ڈالتے ہیں۔ ادھر گلڈ قائم ہوا، ادھر بریگیڈیئر ایف آر خان کی رال اس ادارے پر بری طرح ٹپکنے لگی، یہ صاحب اس زمانے میں مارشل لاء کے روح رواں سمجھے جاتے تھے اور بزعم خود صدر ایوب کے لییے وہی خدمات سر انجام دینے کے لیے بے چین تھے۔

جو ڈاکٹر گوئبلز نے ہٹلر کے لیے انجام دی تھی، عہدے کے لحاظ سے وہ وزارت اطلاعات ونشریات کے سیکرٹری تھے، لیکن اثر ورسوخ کے اعتبار سے وہ صدر ایوب کو چھوڑ کر باقی سب وزیروں، گورنروں اور اعلی حکام پر دھونس جماکر انہیں اپنی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور کرنا، اپنے بائیں ہاتھ کا کھیل سمجھتے تھے، وہ اپنے آپ کو برملا فوجی حکومت کا "دماغ" سمجھتے تھے اور کسی نہ کسی طریقے سے اس کا اعلان بھی فرماتے رہتے تھے۔

دماغ توخیران کا اتنا ہی بڑا تھا جتنا کہ ایک عام انسان کا ہوتا ہے، لیکن ان کا ایک خاص ملکہ یہ تھا وہ دوسروں کے دماغ کرید کرید کر ان کے خیالات کو اپنے استعمال میں لانے کے بادشاہ تھے، وزارت اطلاعات ونشریات کا چارج لیتے ہی انہوں نے بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن (ادارہ قومی تعمیرنو) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کر لیا تھا، جس کا مقصد قوم کی سوچ کو حکومت کی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا تھا۔

جب گلڈ قائم ہوا تو بریگیڈیئر ایف آر خان سچ مچ یہی سمجھے کہ میں نے نہایت چالاکی سے ان کے نہلے پر دہلا مار دکھایا ہے اور گلڈ کے پردے میں ایک ایسا دھوبی گھاٹ بنا ڈالا ہے۔ جہاں پاکستان بھر کے سارے چھوٹے بڑے ادیب حکومت کی تال پر چھو چھو کرکے قوم کے اجتماعی دماغ کو حسب فرمائش اور حسب خواہش سرکاری صابن سے دھونے کا فریضہ سر انجام دیا کریں گے۔

میرے اس کارنے پر انہوں نے اپنی خوشنودی کا اظہار کیا اور اس ادارے کو اپنے طور پر کام میں لانے کے لیے پہلے تو ترغیب وتحریص کے روپہلی اور سنہری باغ دکھانے کی کوشش کی، جب یہ موثر ثابت نہ ہوئے تو انہوں نے اپنے معمول کے مطابق زور آزمائی کا طریقہ اختیار کیا اور مختلف طور طریقوں سے میرا بازو توڑنے مروڑنے کا عمل شروع کیا، لیکن عرصہ بعد انہیں محسوس ہوا کہ میرا بازو بھی ربڑ کا بنا ہوا ہے۔

جو نہ چٹختا ہے نہ کھٹکتا ہے نہ ٹوٹتا ہے، اس کے بعد بریگیڈیئر ایف آر خان نے اپنا رویہ بدل لیا اور اس نے اب اسی بات پر قناعت کرلی کہ وہ ہمارے گلڈ کے دفاتر سے ممبروں کی فہرست حاصل کرتا رہتا اور بیورو آف نیشنل ری کنسٹرکشن کے نمائندے ایسے ادیبوں کی ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ جو معاوضہ لے کر حکومت کی مرضی کے مطابق کچھ مضامین یا پمفلٹ اردو، بنگالی، انگریزی اور دوسری علاقائی زبانوں میں لکھنے پر آمادہ ہوجاتے تھے۔

صدر ایوب کے آئین اور بنیادی جمہوری نظام کی تشہیر میں ان عناصر نے بریگیڈیئر ایف آر خان سے معاوضہ لے کر خاصا کام کیا، یہ عناصر گلڈ نے پیدا کیے تھے نہ گلڈ کی وجہ سے پیدا ہوئے تھے، ان ادیبوں کی برادری میں ایسا بکاو مال ہر دور میں موجود رہا ہے اور رہے گا، گلڈ کی رکنیت ان کے لیے کوئی رکاوٹ ہے نہ اعانت۔ اس اقتباس سے شہاب صاحب کے ایک ماہر افسانہ نگار ہونے کا ثبوت تو ملتا ہے۔

لیکن جہاں تک حقیقت نگاری کا تعلق ہے، خدا مغفرت کرے، مرحوم نے اس کا حق ادا نہیں کیا، سب سے پہلے تو یہی درست نہیں کہ بریگیڈیئر ایف آر خان اور شہاب صاحب میں اشتراک عمل نہیں تھا، ایک عرصے تک گلڈ کی حیثیت صرف اتنی تھی کہ وہ نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو کا تابع مہمل تھا، یہ دونوں ادارے ایک ہی انداز سے سرگرم تھے، فرق یہ تھا کہ بیورو اپنے مقصد کا کھل کھلا اعلان کرتا تھا۔

اور گلڈ نے اپنے مقصد بر ادیبوں کی فلاح وبہبود کا پردہ ڈال رکھا تھا، بریگیڈیئر ایف آر خان نے جب مشہور زمانہ "پاک جمہوریت ٹرین" چلائی تھی تو اس میں شہاب صاحب سمیت نہ صرف گلڈ کے عہدیدار بلکہ متعدد ایسے ادیب بھی شامل تھے۔ جن کا شمار شہاب صاحب کے حواریوں میں ہوتا تھا۔ بریگیڈیئر ایف آر خان نے صدر ایوب کے آئین اور بنیادی جمہوریتوں کا نظام پر "بکاو" ادیبوں سے ضرور کام لیا ہو گا۔

لیکن اس سلسلے میں خود شہاب صاحب نے بھی کچھ کم مستعدی نہیں دکھائی، انہوں نے نہ صرف ادیبوں سے بنیادی جمہوریتوں اور صدر ایوب کے آئین کے بارے میں مضامین لکھوائے، بلکہ خالص ادبی رسالوں کے خصوصی نمبر بھی شائع کرائے، "ساقی"، "نقش" اور "افکار" جیسے رسالوں میں صدر ایوب کی تعریف میں مضامین شائع ہوئے، ان تمام رسالوں اور ادیبوں کو صدر کے خصوصی فنڈ سے معقول معاوضہ ادا کیا گیا۔

رقم کی ادائیگی ابن انشاء مرحوم کے ذریعے ہوئی، ظاہر ہے ابن انشاء کو یہ رقم بریگیڈیئر ایف آر خان نے نہیں دی ہو گی۔ یہاں تک تو رہا شہاب صاحب کی فسوں نگاری، بابوکریسی اور "گلڈ" کا تذکرہ۔ آنے والے دنوں میں فاطمہ جناح، بملا کماری، نائنٹی اور وظائف کا مفصل ذکر خیر "شہاب نامہ" کے اقتباسات سے ہی رہے گا۔

Check Also

Jan Bohat Sharminda Hain

By Cyma Malik