Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Satpara Jheel

Satpara Jheel

سدپارہ جھیل

سدپارہ جھیل تیزی سے بدل رہی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں نارتھ کا لینڈ اسکیپ اتنا بدل چکا ہے کہ میں حیران ہُوا پھرتا ہوں اور پھر پرانے دن دھیان میں آنے لگتے ہیں۔ اس جھیل کے کنارے پاپولر کے درختوں کی قطار ہُوا کرتی تھی۔ درمیاں میں جزیرہ ہوتا تھا۔ جھیل پر ڈیم بنا تو جزیرہ زیرِ آب آ گیا۔ یہ تو سمجھ آتا ہے۔ مگر درختوں کی قطار کس نے غائب کر دی؟ اس جھیل پر چاند نکلا کرتا تو سفید جادو سارے میں پھیل جاتا جو کالے جادو سے زیادہ مُہلک ہوتا ہے۔

چاندنی میں نہا کر یہ جھیل مرگ آثار کشش رکھتی۔ اس کو دیکھنے سے دل چاہنے لگتا کہ ابھی اس کی پاتال میں اُتر جاؤں۔ فیملی کو اس جھیل کی اپنی پرانی تصاویر دکھائیں تو وہ یک زبان ہو کر بولے "یہ تو ویسی نہیں لگ رہی"۔ اس جھیل کنارے واحد ہوٹل "سدپارہ ان" کے نام سے ہوتا تھا جو پانی میں ڈوب گیا اور پھر باقی ماندہ لینڈ سلائیڈ لے گئی۔ ایک رات میں ہوٹل کے کمرے میں سویا ہوا تھا کہ اچانک ہوٹل کے مالک نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔

میری ہڑبڑا کے آنکھ کھُلی تو باہر سے آوازیں آ رہی تھیں"شاہ جی اُٹھو پانی آ گیا ہے۔ " جیسے ہی پاؤں زمین پر دھرا کمرے کے اندر میرے ٹخنے پانی میں ڈوب گئے۔ سدپارہ جھیل کا پانی چڑھ آیا تھا۔ وہ رات بے سرو سامانی میں جاگتے گزار دی تھی۔ ہوٹل کا مالک جعفر سادہ لوح بلتی تھا۔ اس کو یہ افسوس ہوتا رہا کہ میں بے آرام ہو رہا ہوں۔ صبح کو پانی اُتر جاتا اور پھر جعفر کمرے و سامان خشک کرنے میں لگ جاتا۔ ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا تھا یہ معمول نہیں تھا۔

سدپارہ پر انگنت بار جانا ہوا اور ہر دفعہ جھیل بدلی نظر آئی۔ اس جھیل نے کئی روپ بدلے ہیں۔ میں نے اسے کئی پہروں اور کئی دنوں میں دیکھا ہے۔

زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا

ہم فقط زیبِ حکایت تھے فسانہ تُو تھا۔

Check Also

Janaze

By Zubair Hafeez