Sab Se Uncha Ye Jhanda Hamara Rahe
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے
کبھی کبھی تو اس گولے پر گھومتے شدت سے احساس ہونے لگتا ہے کہ مردوں کا واحد موٹو جنسی آسودگی کی خاطر ادویات بنانا اور بیچنا رہ گیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ اس کا رنگ، نسل، زبان و خطہ کیا ہے اس امر میں ساری دنیا کے مرد یکسو نظر آتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنے جسم کے بس ایک ہی عضو کی فکر لاحق ہے باقی دل، گردہ، پھیپھڑا یا دماغ چاہے ناکارہ ہو جائے تو ہوتا رہے مگر ٹنٹنا قائم رہنا چاہئیے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ مملکت خداداد میں ہی حکیموں کی چاندی ہے تو آپ بالکل غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ مجھے بھی یہی لگتا تھا کہ عضو خاص کی نگہداشت کے مسائل مقامی ہیں مگر بیرونی دنیا دیکھ کر معلوم ہوا کہ یہ تو عالمی مسائل میں سرفہرست مسئلہ ہے۔ بس اس فرق کے ساتھ وہاں دیواروں پر اشتہار لکھنا قابلِ تعذیر جرم ہے۔
چائنہ میں گھومتے ہوئے جنسنگ نامی کسی ہربل پراڈکٹ کو بیچنے کی صدائیں سیاحوں کا پیچھا کرتی ہیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ جنسنگ کوئی جڑی بوٹی ہے اور اس کا استعمال "خاص" مقصد کے لیے ہے۔ سڑک پر گھومتے کوئی ہولے سے آپ کے قریب آ کر کہتا ہے " جنسنگ"۔ آپ جواب نہ دیں تو اگلی آواز آتی ہے " چائنیز ویاگرا"۔ آپ مسلسل اگنور کرتے آگے بڑھتے رہیں تو اگلے موڑ پر کوئی چینی آپ کو فارنر جان کر پھر پکار اٹھے گا "جنسنگ"۔ آپ بازاروں میں جائیں تو چینی آپ کا بازو کھینچ کر جنسنگ نامی پراڈکٹ نظروں کے سامنے لہراتے چینی زبان میں نجانے کیا کیا فضائل بتاتا چلا جائے گا۔
دوسرا انکشاف یہ ہوا کہ چائنہ میں جابجا جنسی ادوایات کے سٹور کھُلے ہوتے ہیں۔ ان کے اندر خواتین کی موجودگی دیکھ کر میں سوچتا تھا کہ شاید خواتین کے بارے بھی کوئی پراڈکٹس ہوں گی۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ چین میں ایسی شاپس پر مردوں کی بجائے ان کی خواتین شاپنگ کرنے جاتی ہیں کیونکہ وہی ٹھیک بتا سکتی ہیں کہ ان کے مردوں کا مسئلہ کس نوعیت کا ہے! ۔۔ یہ جان کر مجھے احساس ہوا کہ چین نے یونہی ترقی نہیں کر لی۔ انہوں نے "رائٹ پرسن آن رائٹ پوسٹ" اصول کے ساتھ " رائٹ پراڈکٹ آن رائٹ ڈسکرپشن" کا اصول بھی اپنایا ہے۔
ترکیہ کے بازاروں میں چلتے آپ کو پتی یا قہوہ و مصالحہ جات کی مختلف اقسام کے ساتھ "ویاگرا پتی" بھی مل جاتی ہے اور عجب بات یہ ہے کہ تُرک دکاندار کسی اور پراڈکٹ کو بئچنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ماسوائے "ویاگرا پتی" کے۔ نیز سیاحوں کو ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اس مخصوص پتی کے فوائد یوں سمجھاتے ہیں کہ سننے والے کا ہاسا نکل جاتا ہے اور ساتھ اگر سیاح کی گرل فرینڈ بھی ہو تو اس کا تراہ۔۔
پرتگال، اٹلی، ہنگری، مراکو، عمان، عرب امارات میں آپ کو اسی قسم کی پراڈکٹس مختلف ناموں کے ساتھ بیچتے لوگ مل جاتے ہیں مگر ایک پراڈکٹ تو ایسی ہے جس کی آواز آپ ضرور سنیں گے۔ وہ ہے "حشیش"۔ یہاں حشیش اور جنسی پراڈکٹس یوں لگتا ہے جیسے ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔
ایمسٹرڈیم میں آپ شہر کا ایک چکر پیدل لگا لیں۔ آپ کو ایسی ایسی اشیاء نظر آئیں گی کہ آپ سوچنے لگیں گے کہ اس خوبصورت شہر میں کیا سیکس کے علاوہ بھی کچھ بکتا ہے یا نہیں؟ یہ واحد شہر دیکھا جہاں رنگ برنگی کنڈومز کو ننگا ڈسپلے پر لٹکایا ہوتا ہے۔ اور کیوں؟ استفسار کرنے پر جواب ملا "بس برائے ڈیکوریشن"۔
روس کی بات ہی کیا بتاؤں۔ روسیوں نے اسے آرٹ فارم میں بدل دیا ہے۔ ایسی ایسی پراڈکٹس ہیں اور ان کے ایسے ایسے استعمال ہیں کہ لگتا ہے کہ روس مرد حضرات کا ہیڈکوارٹر ہے اور عورت صرف ایک ٹرائل نمونہ یا تجربہ گاہ ہے جس پر آپ ساری پراڈکٹس ٹرائی کر سکتے ہیں۔
دنیا میں گھومتے آپ کو جن جن پراڈکٹس سے واسطہ پڑے گا وہ یا تو کسی جڑی بوٹی سے بنائی گئیں ہوں گی یا کسی جانور کے جسم کے چربی، یا کسی عضو یا کسی حشرات الارض کے زہر کو موڈیفائی کرکے یا کسی سمندری مخلوق سے حاصل کردہ کوئی خاص عنصر سے۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ مردوں نے اس گولے کے تمام نباتات اور حیوانات کا مطالعہ ہی اس نظر سے کیا ہے کہ ان سے ایسا کیا کشید کیا جائے جس کے نتیجے میں صرف و صرف ایک ہی عضو پھلے پھولے۔ سارے گولے کا ایکو سسٹم جائے بھاڑ میں۔ سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے۔۔