Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Riyasat e Englistan Ke Qayam Se Riyasat e Israel Ke Qayam Tak

Riyasat e Englistan Ke Qayam Se Riyasat e Israel Ke Qayam Tak

ریاستِ انگلستان کے قیام سے ریاستِ اسرائیل کے قیام تک

ہیسٹنگز انگلستان کا ایک خوبصورت ساحلی شہر ہے۔ میں ہیسٹنگز کے پتھریلے ساحل پر بیٹھا تھا۔ سامنے کھُلا سمندر تھا۔ یہی وہ شہر ہے اور یہی وہ ساحل ہے جس نے گزشتہ ہزار سالہ انسانی تاریخ میں اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔۔ کچھ مقام اور کچھ واقعات تاریخ انسانی میں اہم مقام حاصل کرتے ہیں۔

سنہ 1066 تک انگلستان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا تھا جن میں ویسکس، مرسیا، نارتھمبریا، ساؤتھمبریا اور ویلش کی ریاستیں شامل تھیں۔ ان سب پر اپنے اپنے حاکم یا وار لارڈز تھے۔ ویسکس، مرسیا اور نارتھمبریا کے Earls یا وار لارڈز نے مل کر ایڈورڈ کو برطانیہ کا بادشاہ منتخب کیا۔ یہ سبھی ریاستیں آپسی خانہ جنگی کا شکار رہا کرتی تھیں۔ بادشاہ منتخب کرنے کا مقصد ان سب کے مابین توازن اور امن قائم رکھنے کو اتھارٹی مقرر کرنا تھا۔ ایڈورڈ تخت پر بیٹھا۔ اس کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔

انگلش چینل یا سمندری خلیج کے پار فرانس کا علاقہ نارمنڈی تھا جہاں ولیم آف نارمنڈی بطور ڈیوک آف نارمنڈی حاکم تھا۔ ولیم کو ولیم دی باسٹرڈ بھی کہا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنے والد کی ناجائز اولاد کہلاتا تھا۔ وقت کے ساتھ باسٹرڈ کا استعمال متروک ہوگیا اور ولیم نے اپنی قائدانہ و جنگجو صلاحیتوں سے اہلیانِ نارمنڈی میں مرتبہ و مقام بنا لیا۔ یہ نارتھ یعنی شمالی یورپ کے لوگ تھے اسی سبب ان کو "نارمین" کہا جاتا تھا۔ ولیم کا انگلستان کے بادشاہ ایڈورڈ کے ساتھ دور کے کزن کا رشتہ تھا۔ کنگ ایڈورڈ کی ماں ایما بھی نارمنڈی فرانس سے تھی اور ولیم کی خالہ تھی۔ جب کنگ ایڈورڈ کی کوئی اولاد نہ ہوئی تو اس نے اپنا جانشین ولیم آف نارمنڈی کو بنا دیا۔ انگلستان کے لارڈز کے لیے بیرونی حاکم ناقابل قبول تھا۔ وہ شمالی لوگوں کو یوں بھی ناپسند کرتے تھے۔ ویسکس کے لارڈ ہارولڈ نے ایڈورڈ کی موت کے بعد مرسیا اور نارتھمبریا کی ریاستوں اور ان کے لارڈز سے مل کر خود کو بادشاہ مقرر کر دیا اور تاج پہن لیا۔

ولیم آف نارمنڈی کو یہ خبر موصول ہوئی۔ اس نے اپنا حق یعنی انگلستان کا تخت لینے کو لشکر بنایا۔ انگلش چینل کو بحری بیڑے کے ساتھ پار کیا اور 28 ستمبر سنہ 1066 کو وہ ہیسٹنگز کے ساحل پر انگلستان کی دھرتی پر اُترا۔ بادشاہ ہارولڈ نے اپنی فوج اس کے مقابل اُتاری۔ جنگِ ہیسٹنگز میں ہارولڈ مارا گیا۔ ولیم فاتح رہا اور یوں اسے تاریخ ولیم دی کنکرر کے نام سے جانتی ہے۔ جنگ ہیسٹنگز نے انگلستان کی تاریخ کے ساتھ دنیا کی تاریخ بھی بدل کر رکھ دی۔ ولیم دی کنکرر پہلا بادشاہ تھا جس نے سارے انگلستان کو فتح کرکے اس پر اپنی مستحکم حکومت بنا لی (یوں تو انگلستان کو متحد کرنے والا پہلا بادشاہ سنہ 937 میں کنگ ایتھسٹان تھا جس نے یارک کو فتح کرکے انگلستان پر حکومت بنائی لیکن اس کے بعد بھی سکاٹ لینڈ اور دیگر ریاستیں گاہے گاہے بغاوتیں کرتیں اور جھڑپیں ہوتیں)۔ ولیم انگلستان کو فتح کرتے ہوئے لندن کا محاصرہ کرنے پہنچا لیکن اس کی شہرت اور دہشت اس سے پہلے لندن پہنچ چکی تھی۔ ولیم بنا کسی مزاحمت کے شہر میں داخل ہوا اور تخت پر جا بیٹھا۔

ولیم کے ہمراہ جو نارمنڈی سے فوج آئی تھی اس میں شمالی فرانس کے کافی یہودی بھی شامل تھے۔ انگلستان میں یہودیوں کی آباد کاری وہیں سے شروع ہوئی۔ اس زمانہ میں شمالی فرانس میں یہودی بے حد خوشحال اور صاحب ثروت تھے۔ چنانچہ فاتح ولیم اس خیال سے انہیں اپنے ساتھ انگلستان لایا کہ ان کے سرمایہ کی بدولت یہاں بھی ترقی ہوگی اور خوشحالی پھیلے گی لیکن انگلستان آتے ہی ان یہودیوں کو سخت مذہبی تعصب اور عداوت کا سامنا کرنا پڑا۔ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ دونوں یہودیوں سے انتہا کی نفرت کرتے تھے۔

کٹر مذہبی شہر یارک کے شہریوں نے سنہ 1199 میں یہودیوں پر بڑے پیمانہ پر حملے کئے۔ یہودیوں نے کلفورڈ ٹاور میں پناہ لی۔ حملہ آوروں نے ٹاور کا طویل عرصہ تک محاصرا کیا اور آخر کار ٹاور کو آگ لگا دی۔ ڈیڑھ سو یہودی جلا دیے گئے۔ یہودی خاندانوں نے اپنی بقا کے لیے یہ راستہ اختیار کیا کہ انہوں نے تجارت کے میدان میں اپنا سکہ جمایا۔ دولت کمائی اور ہر بادشاہ کو انعام و اکرام سے خوش رکھتے رہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہودی خاندانوں نے تاجِ برطانیہ میں اہم مقام اور قربت حاصل کر لی۔

اس کے باوجود انگلستان بھر میں یہودیوں سے نفرت پنپتی رہی۔ عوام میں یہود کش فساد پھوٹتے رہے۔ سنہ 1278 میں ملک کے تمام یہودی نظربند کر دیئے گئے اور کوئی تین سو یہودیوں کو لندن میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آخر تنگ آ کر سنہ 1290 میں کنگ ایڈورڈ اول نے یہ حل نکالا کہ انگلستان سے تمام یہودیوں کو نکال دیا جائے۔ اس زمانہ میں کوئی سولہ ہزار یہودی انگلستان بدر کئے گئے۔ ملک بدری کے حکم کے باوجود بہت سے یہودی چوری چھپے انگلستان میں رہتے رہے مگر عیسائیوں کے نام سے لیکن خفیہ طور پر وہ اپنے مذہبی عقائد پر برقرار رہے۔ وقت بدلتا رہا۔ وہ وقت کے ساتھ مرنا اور سروائیو کرنا سیکھتے رہے۔

پھر وہ دور بھی آیا کہ فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی تحریک کی بنیاد برطانیہ ہی میں پڑی۔ سنہ 1900 میں لندن میں صہیونی کانگریس کا اجلاس ہوا اور سنہ 1902 میں صہیونی فیڈریشن قائم ہوئی جس میں سات ہزار یہودی ممبر تھے اور آخر میں اسی فیڈریشن کی کوششوں کے نتیجہ میں برطانیہ کے یہودیوں نے فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے قیام کے لیئے 1917 میں برطانوی حکومت کو بیلفور اعلانیہ جاری کرنے پر مجبور کیا۔ صیہونی ریاست کے نظرئیے کو بابائے صیہونیت تھیوڈور ہرزل نے پیش کیا تھا۔

صیہونیت کا بابائے اعظم تھیوڈور ہرزل بڈاپسٹ ہنگری میں ایک اپر کلاس یہودی گھرانے میں پیدا ہوا۔ یورپی اشرافیہ کا حصہ رہا۔ اس کے باوجود اس نے یورپی لوگوں سے اپنے لیے تعصب یا نفرت محسوس کی۔ اس بات کا اظہار اس نے بارہا کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یورپی سماج میں یہودیوں کو مساوی درجہ کبھی نہیں مل سکتا لہذا ایک ایسی ریاست کے قیام کی ضرورت ہے جہاں دنیا میں بکھرے یہودی ایک ساتھ جمع ہو کر بس سکیں۔

سنہ 1896 میں ہرزل نے ایک کتابچہ چھاپا جس کا نام "یہودی ریاست کے خدو خال" تھا۔ یہ کتابچہ یہودی گھرانوں میں تقسیم ہوا اور مانگ بڑھتی چلی گئی۔ ایک عام یہودی کے لیے یہ احساس بہت خوشگوار تھا کہ ان کی اپنی ریاست ہو تو مزہ ہی آ جائے۔ اس کتابچے نے ان میں جوش کو اُبھارا اور یوں جنگل میں آگ کی مانند ہرزل کی شہرت یہودیوں میں پھیلنے لگی۔ ایک سال بعد سوئٹزرلینڈ میں عالمی یہودی کانفرنس منعقد کی گئی جو تجارت سے وابستہ امیر یہودیوں نے چندہ ڈال کر منعقد کی۔ وہیں صیہونی تنظیم کا قیام عمل میں آیا اور اس تنظیم کا بانی ہرزل کو چُنا گیا۔ اس کانفرنس میں یہ طے ہوا کہ دنیا بھر میں موجود صاحب حیثیت یہودی یا مغربی ممالک کی اشرافیہ سے تعلقات استوار کر چکے یہودی اس نظریے کو پروموٹ کرنے کے لیے مغربی ممالک کی اشرافیہ کو اس بات پر قائل کریں کہ فلسطین میں ایک یہودی ریاست کی بنیاد رکھی جائے جو کہ "پرامسڈ لینڈ" (وہ زمین جس پر بسانے کا وعدہ حضرت موسیٰؑ نے یہود قبائل سے کیا) ہے۔

خود ہرزل نے 1898 میں فلسطین پہلی بار دیکھا۔ اس نے دورہ کیا۔ پھر وہ برطانیہ گیا اور برطانیہ کے سب سے دولت مند اور بااثر یہودی خاندان روتھ چائلڈز سے ملا۔ ان کے ذریعہ اس کی ملاقات برطانوی وزیر نوآبادیات جوزف چیمبرلین سے ہوئی۔ جوزف چیمبرلین نے اسے کہا کہ ہمارے پاس یوگنڈا کا کافی رقبہ پڑا ہوا ہے۔ وہاں چاہو تو بس سکتے ہو۔ فلسطین میں مسلمان آبادی یہ قبول کرے گی نہ فلسطین برطانیہ کے زیر تسلط ہے۔

ہرزل نے اس پر آمادگی ظاہر کی۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح یہودی ریاست تو قائم ہو۔ واپس جا کر اس نے صیہونی تنظیم کے اجلاس میں بڑی خوشی سے یہ منصوبہ سنایا تو اراکین اس پر برس پڑے۔ ان کو پرامسڈ لینڈ یعنی فلسطین کے خواب دکھائے گئے تھے اور وہ دل ہی دل میں فلسطین میں بس رہے تھے۔ ردعمل اس قدر شدید تھا کہ ہرزل کو اپنے الفاظ واپس لینا پڑے مگر اس نے بعد ازاں ایک جملہ کہا "ان کی گردنوں میں رسہ پڑا ہوا ہے مگر یہ پھر بھی اکڑے ہوئے ہیں"۔ سنہ 1904 میں اس کا انتقال ہوگیا۔ مگر جو رنگ اس نے یہودیوں کے ذہن میں بھر دیے تھے آگے چل کر اس نے ایک ریاست کے حصول کی خواہش کو عملی جامہ پہنایا۔

سنہ 1914 میں یورپ کی طاقتیں آپس میں لڑ پڑیں۔ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوگئی۔ فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ ہوگیا اور سنہ 1917 میں اعلان بالفور کے ذریعے اس مملکت کا دستاویزی سنگ بنیاد رکھ دیا گیا جس کا خواب ہرزل نے دیکھا تھا۔ سنہ 1940 سے برطانیہ نے فلسطین میں بڑے پیمانے پر یہودی آبادکاری شروع کی۔ سنہ 1946 میں ایک ساتھ ہی ایک لاکھ یہودیوں کو لا بسایا گیا۔ چودہ مئی سنہ 1948 کو جیوش ایجنسی کے سربراہ نے اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ اسی دن اور سب سے پہلے امریکی صدر ٹرومین نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا۔

ہرزل نے جو کتابچہ لکھا تھا وہ ہی یہودی ریاست کا ڈاکٹرائن ہے۔ اس نے لکھا تھا "ہمیں جو بھی علاقہ ملے گا اس میں بڑے پیمانے پر املاک و اراضی خریدنا ہوں گی۔ مقامی آبادی کے لیے ہم اپنی املاک اور اراضی میں روزگار کے مواقع محدود کرتے چلے جائیں گے تاکہ وہ تنگ آ کر بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں ہجرت پر آمادہ ہو جائیں۔ یہ کام بتدریج اور احتیاط سے کرنا ہوگا"۔

بااثر اور دولتمند یہودی خاندانوں نے تاج برطانیہ کا دامن تھام لیا۔ فلسطین میں زمینوں کی خریداری شروع کی گئی اور یہودی وہاں آباد ہونے لگے۔ یہ زمینیں شروعات میں منہ مانگے داموں خریدی گئیں اور فلسطینیوں نے منہ مانگے داموں بیچیں۔ مگر جب ان کو احساس ہوا کہ یہودی ہی خرید رہے اور یہودی ہی تعمیر کرکے بس رہے ہیں تب انہوں نے زمین بیچنے سے ہاتھ کھینچنے شروع کر دیے۔

یہودی سائنسدان خائم وائزمین کیمسٹری کا ایک بڑا نام تھا اور یہودیوں کے ہاں معتبر سمجھا جاتا تھا۔ اسے Father of industrial fermentation کہا جاتا ہے۔ اگست 1939 کو دوسری عالمی جنگ کے آغاز پر خائم وائزمین نے برطانوی وزیراعظم نوائل چیمبرلین کو صیہونیوں کی جانب سے مکمل حمایت کا خط بھیجا۔ نوائل چیمبرلین جوزف چیمبرلین کا بیٹا تھا۔ سنہ 1944 میں برطانیہ نے فلسطین میں آباد یہودیوں پر مشتمل "جیوش انفنٹری بریگیڈ" تشکیل دیا جو عالمی جنگ کے محاذ پر اٹلی کے ڈکٹیٹر مسولینی کے خلاف لڑا۔ بعد ازاں اس بریگیڈ کے تربیت یافتہ ریٹائرڈ ارکان نے 1948 میں لاکھوں فلسطینیوں کو طاقت کے زور پر آبادیوں سے بے دخل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

خائم وائزمین کو امریکی صدر روزویلٹ نے عالمی جنگ دوم کے دوران واشنگٹن میں مدعو کیا۔ وائزمین نے اسے مل کر سمجھایا کہ مصنوعی ربڑ اور ہائی اوکٹین گیسولین کی تیاری صنعتی پیمانے پر ممکن ہے تو عین جنگ کے دوران قدرتی ربڑ اور افواج کے لیے گیسولین کے بحران سے پریشان امریکی انتظامیہ اور امریکی صدر حیران رہ گئے۔ امریکا کے لیے وائزمین کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں امریکا نے اسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کیا۔ خائم وائزمین 1948 میں اسرائیل کی تشکیل کے بعد پہلا صدر بنا اور اس عہدے پر رہتے ہوئے نومبر 1952 کو اس کا انتقال ہوا۔ تب تک وائزمین اسرائیل کو اقوام متحدہ کے تحت ملنے والے علاقے کو دوگنا کر چکا تھا۔

برطانیہ کے اس ناجائز بچے کو امریکا نے گود لے کر پالا اور آج تھیوڈور ہرزل کا خواب گریٹر اسرائیل کا روپ دھارتے ہوئے مزید آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا طاقتور کی ہے۔ کمزور مٹ جاتا ہے یا مٹا دیا جاتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا حصول، جدید تعلیم اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس کے قیام کے ساتھ مضبوط معیشت اور سفارتی آرٹ ہی ریاستوں کے بقا کی ضامن ہے۔

ہیسٹنگز کے ساحل پر شام ڈھلنے لگے تو مسافر نے بھی تاریخ کے پنے سمیٹتے کوچ نقارہ بجا دیا۔ آگے لندن تھا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali