Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Riwayat Kitni Tezi Se Dam Tor Rahi Hain

Riwayat Kitni Tezi Se Dam Tor Rahi Hain

روایات کتنی تیزی سے دم توڑ رہی ہیں

روایات کتنی تیزی سے دم توڑ رہی ہیں۔ ہر سال شب برات پر معافیوں والے میسجز ملتے تھے۔ اس سال ایک بھی نہیں ملا۔ یا تو لوگ سدھر رہے یا پھر ڈھیٹ ہو رہے۔

مجھے یاد ہے برسوں قبل کی ایک شب برات کا قصہ۔ نوکیا کے چھوٹی سکرین والے موبائل سیٹس کا زمانہ تھا۔ ایموجی نامی کوئی شے نہیں ہوتی تھی۔ لوگ کی بورڈ میں موجود سپیشل کریکٹرز سے امیجز بنا کر فارورڈ کیا کرتے۔ ہمارا ایک دوست عرفان تھا۔ اس کو شب برات کی رات اس کے کسی دوست سے فارورڈ میسج موصول ہوا۔ عرفان کی موبائل سکرین چھوٹی سی تھی جس پر اسے وہ اسپیشل کریکٹر سے بنا امیج ٹوٹ کر موصول ہوا۔ بادی النظر میں سے لگا جیسے دوست نے معافی مانگی ہے اور ایسا ڈیزائن بھیجا ہے۔

عرفان نے وہ میسج اپنی نئی نویلی منگیتر کو فارورڈ کر دیا۔ منگیتر کی سکرین بڑی تھی جس پر سارا میسجز مکمل اور واضح نظر آتا تھا۔ دراصل وہ معافی کا سائن نہیں فحش کریکٹر تھا۔

مجھے یہ جان کر دکھ تو لگا کہ عرفان کی منگنی ٹوٹ گئی مگر سچی بات تو ہے یہ کہ تب بھی بہت ہنسی آئی تھی اور اب بھی جب یاد آئے تو ہنسی آ جاتی ہے۔

اس قصے سے بھی بہت پہلے کا واقع ہے۔ لڑکپن کے دن تھے۔ پھلجھڑیاں، شرلیاں پٹاخے، آتشی انار، وغیرہ وغیرہ کے ساتھ شب برات گزرا کرتی۔ گلی میں رونق سی لگ جاتی۔ بڑے اپنے گھر کی منڈیروں پر دئیے جلا کر چراغاں کرتے اور نوجوان آتش بازی میں لگے رہتے۔ ایک شے آیا کرتی جسے ہم تو ریٹھا کہتے تھے مجھے نہیں معلوم آپ اسے کیا کہتے ہوں گے۔ ریٹھا گول سی ڈبیا میں بھرا بارود ہوتا اور اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی لڑی باہر نکلی ہوتی جس کو آگ لگانے پر ریٹھا گول گول گھومنے لگتا۔

ریٹھا کسی بھی سمت کو چل سکنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ایسے ہی ایک بار ایک خبیث ریٹھا میری شلوار کے کھُلے پائنچوں سے اندر جا گھُسا اور میرے کولہے سے ذرا نیچے جا پھٹا۔ اس کے پھٹنے کا نشان دو تین سال تک رہا مگر خوش آئند بات یہ ہوئی کہ اس کے بعد تمام عمر میں نے آتش بازی سے توبہ کر لی۔

یوں نہیں کہ شب برات "منانا" چھوڑ دی۔ بس آتشیں سامان جلانا چھوڑ دیا اور اس کی جگہ پٹاس نامی اخیر خبیث آئیٹم نے لے لی۔ پٹاس ایسا ہتھیار ہوتا جس کو ویلڈنگ والے سے سپیشل بنوانا پڑتا۔ سرئیے کے ایک سرے پر لوہا ویلڈ ہوتا اور اس لوہے کے اندر سوراخ ہوتا جس میں گندھک بھری جاتی۔ پھر ایک بڑا سا کیل سرئیے کے ساتھ لوہے کی تار سے اٹیچ ہوتا۔ گندھک بھر کر اس کے اوپر کیل رکھ کے سوراخ بند کیا جاتا اور پھر وہ کیل کسی دیوار پر مارا جاتا۔ جتنا بڑا سوراخ اور اس میں بھری گندھک کی مقدار اتنا ہی قیامت خیز دھماکا۔

ایک بار وہ پٹاس زیادہ ہی چل گئی۔ ہمسائے کی دیوار سے دو اینٹیں مکمل تباہ ہوگئیں یعنی گھر کی بیرونی دیوار میں اچھا خاصہ سوراخ پڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی پٹاس پھٹ گئی یعنی لوہے کا چٹو پھٹ گیا۔ مولا کا شکر کہ اس کے ریزے مجھے نہیں لگے میری بچت ہوگئی۔ مگر اس کے بعد ابا جی سے وہ چھترول ہوئی کہ نانی یاد آ گئی اور بلآخر میری پٹاس بھی چھُوٹ گئی۔

اس دن ابو کی مار کے بعد میں نے روتے روتے قسم کھائی کہ اب ہاتھ سے کچھ نہیں چلانا۔ مگر پھر وقت کے ساتھ کیمرا آ گیا اور پھر قلم۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin